اسلام آباد(نیوز ڈیسک)بحران زدہ عرب ریاست شام کے صدر بشارالاسد نے شام کی خانہ جنگی میں ترکی کے کردار پر کڑی تنقید کی ہے۔ اسد نے خاص طور سے گزشتہ ماہ شہر ادلب پر باغیوں کے قبضے اور اسٹریٹیجک حوالے سے اس اہم شہر پر سے حکومت کے کنٹرول کے خاتمے کا ذمہ دار ترکی کو ٹھہرایا جو شامی صدر کے بقول باغیوں کی حمایت کر رہا ہے۔ادلب ترکی کی سرحد سے بہت نزدیک واقع ہے۔ گزشتہ چار سال سے جاری شام کی خانہ جنگی میں اب تک شام کے دو صوبائی دارالحکومتوں کو باغی اپنے قبضے میں لے سکے ہیں۔ ادلب ان میں سے ایک ہے۔ اس پر اسلامک گروپوں بشمول القاعدہ کے شامی دھڑے نصرہ فرنٹ کے اتحادیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ، سویڈن کے ایک روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئےشامی صدر کا مزید کہنا تھا، ” کوئی بھی جنگ ہو وہ فوج کو ضرور کمزور بنا دیتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی مضبوط اور جدید کیوں نہ ہو، ادلب کے دمشق حکومت کے کنٹرول سے نکل جانے کی ایک بنیادی وجہ ترکی سے باغیوں کو ملنے والی حمایت و امداد ہے۔ لاجسٹک، عسکری اور ظاہر ہے کہ مالیاتی امداد جو سعودی عرب اور قطر سے انہیں ملی ہے”۔ا±دھر ترکی کے ایک حکومتی ترجمان نے بشار الاسد کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ یاد رہے کہ ترکی کا شمار شامی صدر بشار الاسد کے سب سے بڑے دشمن ملک میں ہوتا ہے۔شام کا تنازعہ دو لاکھ بیس ہزار انسانوں کی ہلاکت کا سبب بن چ±کا ہے۔ شامی صدر بشارالاسد ملک کے بیشتر شمال اور مشرقی علاقوں پر سے کنٹرول کھو چ±کے ہیں تاہم وہ اپنے اتحادیوں ایران اور لبنانی حذب اللہ کی مدد سے شام کے زیادہ آبادی والے مرکزی مغربی حصوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ادلب پر باغیوں کے قبضے کے بعد سے حکومتی فورسز کی طرف سے بھاری فضائی حملے جاری ہیں۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق جمعے کو کم از کم 54 فضائی حملے ہوئے ہیں۔شام کی صورتحال کی نگرانی کرنے والے گروپ کا کہنا ہے کہ جمعے کو دھماکہ خیز مواد اور کم از کم 17 بیرل بم حملے ہیلی کاپٹروں سے برسائے گئے ہیں تاہم اس بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی فوری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔سیرین آبزرویٹیر فار ہیومن رائٹس نے مزید کہا ہے کہ حکومتی فورسز نے جمعے کو ادلب میں القاعدہ کے چوٹی کے دو لیڈروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ یہ دونوں خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب تھے،شامی صدر بشار الاسد نے بھی کہا ہے کہ شام کے تنازعے کو مزید پیچیدہ بنانے میں بیرونی مداخلت نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔