اسلام آباد(نیوز ڈیسک)بنگلہ دیش میں حکومت نے ملک میں بچوں کے ڈوبنے کے واقعات میں کمی لانے کے لیے سکولوں میں تیراکی سکھانے کو لازمی قرار دے دیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں پانچ سے 17 برس کی درمیانی عمر کے 18 ہزار بچے اس لیے ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ انھیں تیرنا نہیں آتا۔بنگلہ دیشی وزارتِ تعلیم کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں واقع تالابوں اور جھیلوں میں بچوں کو تیراکی کی تربیت دی جائے گی جبکہ ملک کی جامعات میں واقع سوئمنگ پولز تک بھی ان بچوں کو رسائی دی جائے گی۔بی بی سی کو ملنے والی معلومات کے مطابق حکام ملک بھر کے سکولوں سے تیراکی کی تربیت کے حوالے سے ماہانہ رپورٹ بھی طلب کریں گے دنیا کے گنجان آباد ممالک میں شامل بنگلہ دیش میں پانی میں ڈوبنے سے ہلاکتوں کو ’پوشیدہ جان لیوا بیماری‘ کہا جاتا ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں بچے اپنے اردگرد پانی دیکھ کر ہی بڑے ہوتے ہیں اور کم عمری میں ہی تیرنا سیکھ لیتے ہیں لیکن شہروں میں ایسا نہیں ہے۔شہری علاقوں میں اس حکم پر عمل کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ وہاں تیراکی کے تالابوں کی شدید کمی ہے۔ یہاں ایسے واقعات میں مرنے والوں میں سے بیشتر غریب بچے ہوتے ہیں جو دیہی علاقوں میں دریاو¿ں، تالابوں اور جھیلوں کے نزدیک رہتے ہیں۔یہ تالاب ہی بنگلہ دیش کی 16 کروڑ آبادی میں سے دو تہائی کے لیے نہانے کا مقام بھی ہیں۔ملک کے سیکریٹری تعلیم نذرالاسلام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بنگلہ دیش میں اوسطاً روزانہ 48 افراد ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت بڑی تعداد ہے اور آسٹریلیا کے مقابلے میں یہ 20 گنا زیادہ ہے۔‘نذرالاسلام نے یہ بھی بتایا کہ ملک میں ہلاک ہونے والے چار برس سے کم عمر کے ہر چوتھے بچے کی وجہ ہلاکت ڈوبنا ہی ہوتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں بنگلہ دیش میں اسہال اور دیگر بیماریوں سے بچوں کی ہلاکتوں پر قابو پانے میں کامیابی ہوئی ہے وہیں پانی میں ڈوبنے سے ہونے والی ہلاکتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔بی بی سی بنگلہ کے صابر مصطفیٰ کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں بچے اپنے اردگرد پانی دیکھ کر ہی بڑے ہوتے ہیں اور کم عمری میں ہی تیرنا سیکھ لیتے ہیں لیکن شہروں میں ایسا نہیں ہے۔ان کے مطابق شہری علاقوں میں اس حکم پر عمل کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ وہاں تیراکی کے تالابوں کی شدید کمی ہے ۔