اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جرمنی میں استغاثہ کا کہناہے کہ فرانس میں جرمن مسافر طیارے کو ممکنہ طور پر جان بوجھ کر تباہ کرنے والے معاون کپتان نے اپنی بیماری کی تفصیلات کو ائیرلائن سے چھپایا تھا۔استغاثہ کے بقول آندریا لوبٹز کے گھر سے ان کی بیماری سے متعلق بعض پھٹے ہوئے پرچے ملے ہیں جن میں سے بعض پرانے ہیں اور بعض جہاز تباہ ہونے والے دن کے بارے میں ہیں۔آندریا لوبٹز کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ذہنی بیماری یا ڈپریشن کا شکار تھے، حالانکہ استغاثہ کی جانب سے ان کی بیماری کا نام واضح نہیں کیا گیا ہے۔جرمن ونگز کی مالک کمپنی لفتھانزا نے ایسے نئے قواعد کا اعلان کیا ہے جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ پائلٹس کو کاک پٹ میں کبھی بھی اکیلا نہ چھوڑا جائے۔وائس ریکارڈنگ سے موصول ہونے والے ڈیٹا کے مطابق آندریا لوبٹز نے جان بوجھ کر کوک پٹ کا دروازہ بند رکھا اور آٹھ منٹ تک جہاز کو فرانس کے پہاڑوں میں اتارا جس کے بعد جہاز تباہ ہوگیا۔جرمنی میں استغاثہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے مسٹر لوبٹز کے دو گھروں سے بعض طبی دستاویزات برآمد کیے ہیں جن سے اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ وہ بیمار تھے اور ’ان کا باقاعدہ علاج جاری تھا‘۔جرمن ونگز کی مالک کمپنی لفتھانزا نے ایسے نئے قواعد کا اعلان کیا ہے جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ پائلٹس کو کاک پٹ میں کبھی بھی اکیلا نہ چھوڑا جائے،جرمنی کے رینیشر پوسٹ اخبار کے مطابق آندریا لوبٹز کے گھروں سے ان کی بیماری سے متعلق دو ڈاکٹروں کے دیے ہوئے پرچے ملے ہیں۔ڈسلڈورف یونیورسٹی ہسپتال نے اخبار کو بتایا ہے کہ آندریا لوبٹز اپنی بیماری سے متعلق ’وضاحت‘ حاصل کرنے کے لیے فروری اور رواں مہینے دس مارچ کو ہسپتال آئے تھے۔آندریاز لوبٹز جرمن کمپنی ’جرمن ونگز‘ کے ملازم تھے اور فرانسیسی حکام کے مطابق بظاہر انھوں نے طیارے کو جان بوجھ کر تباہ کیا۔جرمنی کی قومی فضائی کمپنی ل±فتھانزا کی ذیلی کمپنی ’جرمن ونگز‘ کا مسافر طیارہ منگل کو بارسلونا سے ڈسلڈورف جاتے ہوئے فرانس کے پہاڑی سلسلے ’فرنچ ایلپس‘ پرگر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس حادثے میں 144 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔آندریاز مغربی جرمنی کے قصبے مونٹاباو¿ر اپنے والدین کے گھر میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔جرمن پولیس نے آندریاز کی رہائش گاہ سے حاصل ہونے والی اہم چیز کے بارے میں تو مزید نہیں بتایا تاہم وہ ان کے کمپیوٹر سمیت متعدد اشیا تجزیے کے لیے ساتھ لے گئی ہے۔آندریاز مغربی جرمنی کے قصبے مونٹاباو¿ر اپنے والدین کے گھر میں ان کے ساتھ رہتے تھے،پولیس کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’ہمیں کچھ ملا ہے جسے تجزیے کے لیے لے جایا گیا ہے۔ ہم فی الوقت یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ کیا چیز ہے لیکن جو کچھ ہوا یہ اس کا انتہائی اہم سراغ ہو سکتا ہے۔‘تاہم ترجمان نے کہا کہ یہ سراغ خودکشی سے قبل چھوڑنے جانے والا پیغام نہیں ہے۔تحقیقات کے دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جرمن پائلٹ مبینہ طور پر ڈپریشن کا مریض رہ چکے تھے اور انھوں نے 2008 میں اپنا نفسیاتی علاج کروانے کے لیے فضائی تربیت کا سلسلہ بھی معطل کیا تھا۔جرمنی کے وزیرِ داخلہ ٹوماس ڈی میزیری نے کہا ہے کہ آندریاز لوبٹز کی سکیورٹی جانچ پڑتال میں کوئی غیرمعمولی چیز سامنے نہیں آئی تھی جبکہ لفتھانزا نے بھی کہا ہے کہ وہ پرواز اڑانے کے لیے 100 فیصد فٹ تھے۔ادھر متعدد فضائی کمپنیوں نے اس حادثے کے بعد پرواز کے دوران ہمہ وقت عملے کے دو ارکان کی کاک پٹ میں موجودگی یقینی بنانے کے لیے قواعد میں تبدیلی کا اعلان بھی کیا ہے۔اس سے قبل جمعرات کو فرانسیسی حکام نے کہا تھا کہ تباہ ہونے والے مسافر طیارے کا معاون کپتان (کو پائلٹ) بظاہر ’طیارے کو تباہ‘ کرنا چاہتا تھا۔لفتھانزا نے کہا ہے کہ لوبٹز پرواز اڑانے کے لیے 100 فیصد فٹ تھے،حادثے کی تفتیش کرنے والے سرکاری ماہر برائس روبن نے بلیک باکس سے ملنے والی آوازوں سے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ حادثے کے وقت معاون کپتان کاک پِٹ میں تنہا تھا اور اس نے اس وقت دانستہ طور پر طیارے کی بلندی کم کرنا شروع کر دی جب طیارے کا کپتان کاک پِٹ سے باہر تھا۔برائس روبن کا کہنا ہے کہ جس وقت پائلٹ واپس کاک پِٹ میں آنے کی جدو جہد کر رہا تھا اس وقت کاک پِٹ کے اندر ’مکمل خاموشی‘ تھی۔’اس وقت معاون کپتان جہاز کا کنٹرول سنبھالے ہوئے تھا۔ جب وہ کاک پٹ میں تنہا ہوا تو اس نے فلائٹ مانیٹرنگ سسٹم پر جہاز نیچے اترنے کا بٹن دبایا۔ اس اونچائی پر جہاز کو نیچے اتارنے کی حرکت دانستہ ہی ہو سکتی ہے۔