واشنگٹن (نیوز ڈیسک) یمن میں جاری لڑائی میں سعودی عرب کے حصہ لینے پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان کھڑا ہونے والا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر شدید الزام تراشی کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وائٹ ہاﺅس کا کہنا ہے کہ انہیں یمن کے باغیوں کو ایرانی اسلحہ کی فراہمی کی خبروں پر تشویش ہے جبکہ سعودی عرب نے ایران کیلئے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
امریکہ میں تعینات سعودی عرب کے سفیر عادل الزبیر نے فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” ایران خطے میں موجود عرب ممالک کے تعلقات میں دراندازی کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خطے میں ایران کی بڑھتی ہوئی دخل اندازی سے نمٹنا ہے اور یمن میں حوثی باغیوں کو ملنے والی ایران کی سپورٹ کے خلاف برسرپیکار ہیں“۔
یمن میں سعودی کارروائی کے خلاف ایران نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے یمن کی خودمختاری کے خلاف قرار دیا تھا۔ ایران کے وزیر داخلہ محمد جواد ظریف نے کہا تھا کہ ”کسی بھی خودمختار ملک کے خلاف فوجی کارروائی غلط ہے اور اس سے صرف اور صرف معاملات پیچیدہ ہونے کے ساتھ معصوم لوگوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ کچھ عالمی ماہرین نے کہا ہے کہ یمن میں سعودی کارروائیاں خوراک کی قلت اور انتہاءپسندی میں اضافے کا سبب بنیں گی۔
یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح جنہوں نے ملکی سطح پر ایک سال تک جاری رہنے والے مظاہروں کے بعد 2012ءاستعفیٰ دیا تھا، پر الزام ہے کہ وہ باغیوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور انہیں ایسے کئی فوجی دستوں کی حمایت حاصل ہے جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں تیار کئے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تنازع نے امریکہ کی القاعدہ جنگجوﺅں کے خلاف ایک عرصے سے جاری ڈرون جنگ میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے جنہوں نے صالح کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دوبارہ یمن میں طاقت کے حصول کی کوشش شروع کر دی ہے۔ شام اور عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ کرنے والی شدت پسند تنظیم داعش بھی یمن میں سرگرم القاعدہ کے ساتھ مل کر اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ داعش نے حال ہی میں یمن کے دارالحکومت ثناءمیں ایک شیعہ مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے جس میں کم از کم 142 افراد جاں بحق ہوئے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس لڑائی کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اچانک اضافہ بھی دیکھنے میں آیا کیونکہ ماہرین کے مطابق اس لڑائی کے باعث تیل کی سپلائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے تاہم جمعہ کے روز تیل کی قیمتوں میں ایک بار پھر کمی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ یمن میں پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد سعودی عرب نے اپنی سرحدوں پر مزید فوجی دستوں کو تعینات کرنے کیساتھ ساتھ تیل کے کنووﺅں کی سیکیورٹی کو بھی بڑھا دیا ہے جبکہ پاکستان نے سعودی عرب کی خودمختاری کو بچانے کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانئی کرائی تاہم یمن میں لڑنے کیلئے پاکستانی فوجیوں کو بھیجنے سے متعلق خبروں کی تردید کی۔
امریکی صدر براک اوباما نے یمن کو لاجسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ کی فراہمی ممکن بنانے کی ہدایت کی تھی جبکہ مصر، اردن، مراکش او سوڈان نے اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا ۔ دوسری جانب عراق نے ان کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہوئے پرامن حل نکالنے پر زور دیا تھا ۔
یمن کی لڑائی، سعودی عرب اور ایران میں تنازع شدت اختیار کر گیا
27
مارچ 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں