جدّہ – حرمین الشریفین کے امور کے نگران ادارے نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا ہے کہ مسجد الحرام کی توسیع کے دوران ملنے والے نوادرات کو بلیک مارکیٹ میں ہزاروں ریال کے بدلے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ بیان مقامی میڈیا میں کیے جانے والے اس انکشاف کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ اشیاء چھ ہزار ریال سے لے کر ایک لاکھ پچاس ہزار ریال کے درمیان فروخت کی جارہی ہیں۔ حرمین الشریفین کے نگران ادارے کے ترجمان احمد المنصوری نے حال ہی میں کہا ہے کہ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ملنے والے تمام نوادرات کا ریکارڈ موجود ہے اور جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے نظام کے تحت اس پر نظر رکھی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ نظام ان تمام نایاب اشیاء پر نظر رکھتا ہے جو دس سال قبل توسیعی کام کے دوران اس مسجد سے نکالی گئی تھیں، یا پائی گئی تھیں۔ اس میں کئی سال قبل تعمیر کیے جانے والے پرانے ستون بھی ہیں، جو حال ہی میں مقامی طور پر ڈسپلے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ تاہم عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق کچھ ورکرز یہ اشیاء ڈیلروں کو فروکت کرتے پائے گئے ہیں۔ ایک ڈیلر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ دعویٰ کیا کہ اس کے پاس مسجد الحرام سے حاصل ہونے والے اصلی حصے موجود ہیں، جو انہوں نے توسیعی کاموں کے دوران خریدے تھے۔ اس ڈیلر نے دعویٰ کیا کہ حرمین الشریفین کے نگران ادارے کے گودام اور ٹھیکے داروں سے براہ راست یہ اشیاء باہر آئی ہیں اور دیگر لوگوں کے ذریعے بھی جو مکہ کی تاریخ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈیلر نے کہا کہ اس نے بعض اشیاء کی قیمتوں کا تعین کیا ہے۔ ’’مثال کے طور پر زم زم کے کنویں کے تہہ خانے سے نکالے جانے والے ایک ٹائل جسے 1954ء میں شاہ سعود کی جانب سے شروع کیے گئے توسیعی منصوبے کے دوران نکالا گیا تھا، کی قیمت چھ ہزار ریال ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’لیکن تانبے کا ٹکڑا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قبر مبارک کا کور تھا، کی قیمت ایک لاکھ پچاس ہزار ہے۔ ایک اور ٹکڑا جس پر ’’باب شاہ عبدالعزیز‘‘ کے الفاظ کندہ ہیں، کی قیمت بھی ایک لاکھ پچاس ہزار ہے۔‘‘ مذکورہ ڈیلر کا کہنا ہے کہ ان اشیاء نے اپنی مارکیٹ پیدا کرلی ہے، اس لیے کہ ان میں سے بہت سے کافی قدیم ہیں اور خلافتِ راشدہ اور خلافتِ عثمانیہ کے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔