کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا بھر میں بڑے اور کامیاب لوگوں کے نام پر مختلف سائنسی ایجادات و دریافتوں کا نام رکھنا کوئی نئی بات نہیں، سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کے نام پر بھی ایک درخت کا نام رکھ دیا گیا۔ یہ واقعہ دراصل گزشتہ روز سامنے آیا جب صوبہ بلوچستان کے ضلع واشک میں ڈپٹی کمشنر کا جاری کردہ حکم نامہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ واشک کے ڈپٹی کمشنر نے حکم جاری کیا کہ
ضلع بھر میں سفیدے کا درخت یعنی یوکپلٹس اور ’درخت مصطفیٰ کمال‘ یعنی کونو کارپس لگانے پر پابندی عائد کی جارہی ہے لہٰذا اس ضمن میں ان دونوں درختوں کی شجر کاری سے پرہیز کیا جائے۔ خیال رہے کہ کسی علاقے میں کسی مخصوص قسم کے درخت لگانے پر اس وقت پابندی عائد کی جاتی ہے جب وہ درخت اس علاقے کے لیے موزوں نہ ہوں اور وہاں کے ماحول، جانور و پرندوں اور مقامی آبادی کے لیے نقصان پیدا کرنے کا سبب بنے۔ کونو کارپس کے درختوں کا نام اس وقت سامنے آیا تھا جب سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے شہر کو سرسبز کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری کروائی تاہم مقامی انتظامیہ کی نااہلی کہ شہر کی آب و ہوا اور درختوں کی مطابقت کا خیال کیے بغیر پورے شہر کو کونو کارپس کے درختوں سے بھر دیا گیا۔ کونو کارپس درختوں کی مقامی قسم نہیں ہے جس کے باعث یہ کراچی کے لیے مناسب نہیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ان درختوں کے باعث پولن الرجی فروغ پانے لگی۔ یہ درخت دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ درخت زیر زمین اپنی جڑیں نہایت مضبوط کر لیتے ہیں جس کے باعث یہ شہر کے انفرا اسٹرکچر کو متاثر کر رہے ہیں۔ زیر زمین موجود پانی کی پائپ لائنیں ان کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش
کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ان درختوں کی تباہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ درخت نا موزوں ہیں جس کی وجہ سے ضلع واشک میں بھی اسے لگانے پر
پابندی عائد کردی گئی۔ قطع نظر اس سے کہ ان درختوں کو لگاتے ہوئے سابق میئر کراچی کی کم علمی آڑے آئی یا جانتے بوجھتے اس کے نقصانات سے صرف نظر کیا گیا، کونو کارپس کو مصطفیٰ کمال کا دیا ہوا تحفہ کہا جاتا ہے جو کراچی والوں کے لیے کسی زحمت سے کم نہیں۔