اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کو بتایا گیا کہ پاکستان دنیا کے 7خطرناک آ لو دہ ترین ممالک میں شامل ہوتا ہے،موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب اور خشک سالی بڑھ رہی ہے،سمندر میں طوفان تیزی سے آرہے ہیں،بے تحاشہ زرعی ادویات کے استعمال کی وجہ سے تتلیاں، جگنو اور لیڈی فنگر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، ملک میں 2020تک مرکری والے
لیمپ، تھرمامیٹر، بلڈ پریشر آلوں میں پابندی عائد کر دی جائے گی، لیمپ انڈسٹری میں مرکری پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے وہ اب ایل ای ڈی پر چلی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ستارہ ایاز کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر مشاہد حسین سید، محمد اکرم، پرویز رشید، کیشو بائی،گل بشریٰ کے علاوہ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔موسمیاتی تبدیلی کے حکام نے بتایا کہ گڈانی میں مضر صحت کیمیکل اور ماحول کو صاف بنانے کیلئے 0.27ملین ڈالر کی رقم سے منصوبہ شروع ہے جس کا مقصد مضر صحت کیمیکل کا خاتمہ ہے، حکام نے بتایا کہ اس وقت انسانوں کی صحت پر ہوا، کیمیکلز، زرعی ادویات اور ہجرت کرنے والے پرندوں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس وقت تک وزارت 470مضرصحت کیمیکلز تلف کر چکی ہے،مناتا کنونشن کے تحت ملک کو انسانی صحت کی مرکزی اور اس سے ملحقہ اشیاء سے نقصان پہنچانے والی اشیاء سے محفوظ رکھنا ہے، ملک میں 2020تک مرکری کے استعمال پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی جائے گی، اس وقت تک لیمپ، تھرما میٹر، بلڈ پریشر کے آلات میں مرکری آلات پر پابندی عائد کر دی جائے گی،2025تک کورل الکلی پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت کول فائر پاورپلانٹس پر چیکنگ جاری رکھی ہوئی ہے، ساہیوال،سی پیک پلانٹس سمیت 3پلانٹس چیک کئے گئے ہیں،جن پر مضر صحت گیسوں کا اخراج نہیں ہورہا، سکولوں اور کالجوں کے ذریعے طلباء کو مرکری کے نقصانات سے آگاہ کیا جا رہا ہے،آئی جی فارسٹ نے بتایا کہ بے تحاشا زرعی ادویات کے استعمال کی وجہ سے ملک میں تیزی سے
جگنو، تتلیاں اور لیڈی فنگر ختم ہو رہے ہیں،تھر میں نیم کے ذریعے زرعی ادویات بنائی جاتی ہیں جس کے ذریعے جگنو اور تتلیاں نہیں مرتے اور مچھر مر جاتے ہیں لیکن وہ عالمی طور پر رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پیداوار انتہائی کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں 4ہزار جانور اور 3500پودے ایسے ہیں جن کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے،ملک میں دیسی مرغیاں،
مچھلیاں اور گائے وغیرہ کا تیزی سے خاتمہ ہو رہا ہے اور ان کی جگہ دوسرے ممالک کے جانور لے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزارت ماحولیات چھ ماہ بعد رپورٹ تیار کرتی ہے جن میں ناپید ہونے والے پرندوں، جانوروں کے ریکارڈ کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے، پاکستان کے ان جانوروں اور پرندوں کو ٹیگ کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے، اگر کسی ملک میں یہ پرندے یا جانور سمگل ہوں
تو اس ملک کو یورپی یونین کنونشن کے تحت جرمانہ کیا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں حکام نے بتایا کہ مارخور کے شکارپر پہلے عالمی پابندی تھی لیکن اب ہمیں اجازت دی گئی ہے کہ سال میں عالمی طور پر 12 مارخور شکار کئے جا سکتے ہیں، اس کے شکار کیلئے اس سال ایک کروڑ45لاکھ روپے کا آکشن ہوا ہے،جس کی رقم قومی خزانے میں جمع کرا دی گئی ہے،
جبکہ پنجاب میں ایک گھڑیال کی آکشن 17ہزارڈالرز میں ہوئی۔ ڈی جی ماحولیات عرفان طارق نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں کوششیں کی جا رہی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی آئوٹ آف کنٹرول نہ ہو جائے، ماحولیاتی تبدیلی ہونے کی وجہ 6گرین گیسز کا اخراج ہے،ماضی میں فضاء میں کاربن کی مقدار 278فیصد تھی جو 1999میں 378فیصد اور اب 478فیصد تک پہنچ گئی ہے، ماحولیاتی پیٹرن تبدیل ہونے کی وجہ سے بارشیں رک گئی ہیں، ماضی کی نسبت بارشیں یکدم سیلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور بعد میں پورا ملک خشک سالی کا شکار ہو جاتا ہے، ملک میں سمندری طوفان میں شدت بڑھ رہی ہے،جسے کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔