سوات (مانیٹرنگ ڈیسک) دنیا بھر میں وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں زبانیں ناپائید ہو گئیں ہیں ۔ پاکستان میں بھی متعدد زبانیں ثقافت کا حصہ رہی ہیں مگر ان میں سے ایک زبان ایسی بھی ہے جووقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئی ہے اور اب اسکو بولنے والے صرف تین افراد ہی باقی ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق سوات کی ایک دور دراز وادی میں بدیشی نامی ایک ایسی زبان بولی جاتی ہے جس کے جاننے والے صرف تین لوگ باقی بچے ہیں۔
یہ زبان جو سوات کی ایک برف سے ڈھکی، دشوار گزار وادی بشی گرام میں بولی جاتی ہے۔بشی گرام کے گاؤں مغل مار میں بولے جانے والی اس زبان کا نام بدیشی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ زبانوں کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے ایتھنولاگ کے مطابق یہ زبان معدوم ہو چکی ہے اور اس کا کوئی بولنے والا باقی نہیں بچا۔ لیکن مغل مار میں سید گل، رحیم گل اور علی شیر موجود جو بدیشی بولنے والی نسل کے آخری نمائندے ہیں۔ ‘اب یہ زبان بولنے والے نہیں رہے۔ پہلے نو دس گھر تھے جن میں بدیشی زبان بولی جاتی تھی۔ زبان اس لیے ختم ہوئی کہ باہر سے رشتے کرنے لگے۔ ان کے بچے ہوئے جس سے ہماری زبان ختم ہو گئی۔’ زبان بولنے کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے خود یہ تینوں اشخاص بھی بدیشی بھولتے جا رہے ہیں۔بدیشی کے بطور زندہ زبان باقی بچ جانے کے امکانات تو بہت کم نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر ماہرین اس کی صوتیات اور صرف و نحو کا ریکارڈ ہی مرتب کر دیں تو کم از کم کتابوں کی حد تک اسے زندہ رکھا جا سکتا ہے۔