لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) برطانیہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی جبکہ مسلمان ہونے والی آبادی کا 66 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ برطانیہ میں کثیرالمذہبی تنظیم فیتھ میٹرز نے ایک طویل سروے کے بعد کہا ہے کہ برطانیہ میں اسلام تیزی
سے فروغ پارہا ہے اور اسے قبول کرنے والے خواتین و حضرات کے مطابق اسلام پر عمل پیرا رہتے ہوئے برطانیہ میں رہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ معاشرے سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ فیتھ میٹرز نے کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ مغربی طرزِ زندگی کے خلاف ہیں بلکہ عام نارمل افراد دین کی جانب مائل ہورہے ہیں اور وہ اسلام کو مغربی معاشرے اور اقدار کے ساتھ ہم آہنگ بھی سمجھتے ہیں۔سروے کے مطابق گزشتہ 12 ماہ میں 5200 افراد نے اسلام قبول کیا جن میں لندن کے لوگوں کی تعداد 1400 ہے۔ اسلام لانے والے2تہائی افراد میں سفید فام خواتین شامل ہیں جن کی اوسط عمر 27 سال ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بعض افراد نے دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کیں جن میں نک ریئلی بھی شامل ہے جس نے کیل بم سے برسٹل کے ایک ریستوران کو اڑانے کی کوشش کی۔ دوسری جانب جوتے میں بم چھپانے والے رچرڈ ریڈ اور 7 جولائی کے بم دھماکوں میں حصہ لینے والے گرمین لنڈسے بھی برطانوی نومسلم تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام قبول کرنے والے افراد کی بہت قلیل تعداد ہی شدت پسندی کی جانب مائل ہے جنہیں ایک چھوٹی اقلیت قرار دیا جاسکتا ہے، تاہم سوان سی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے اس سروے میں نومسلم خواتین و حضرات نے برطانوی ماحول کے منفی پہلوں پر بھی بات کی تھی۔ان کے نزدیک
شراب نوشی، منشیات، اخلاقی گراوٹ، جنسی بے راہ روی اور خریداری و مادہ پرستی کا جنون برطانیہ کے تاریک پہلو ہیں۔ اسلام قبول کرنے والے ہر4 میں سے ایک نے اعتراف کیا ہے کہ ایک باعمل مسلمان برطانوی معاشرے سے فطری طور پر متصادم ہے۔