ہوائی جہازوں اور فضائی انڈسٹری سے کئی اور بھی ایسے چونکا دینے والے حقائق جڑے ہیں جن سے عام انسان ناواقف ہیں۔روس میں بننے والا مریا اینٹونوو دنیا کا سب سے بڑا سامان بردار طیارہ ہے اس کا مکمل سائز تقریباََ ایک فٹبال گرائونڈ جتنا ہوتا ہے۔ اس کو بنانے کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ سپیس شٹل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بحفاظت اور تیز رفتار طریقے سے
منتقل کیا جا سکے۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ دنیا کا سب سے تیزرفتار طیارہ بلیک برڈ ایس آر 71ہے اور اس کی انتہائی رفتار 2193میل فی گھنٹہ ہے۔دنیا کا سب سے بڑا مسافر طیارہ ائیر بس اے 380 ہے۔ یہ ڈبل ڈیکر اور 4 جیٹ انجن کا حامل طیارہ ہے اور اس کی پہلی فلائٹ 27 اپریل 2005 کو تھی۔دنیا کا سب سے چھوٹا طیارہ Bede BD-5 ہے۔ اس کے پر چودہ سے اکیس فٹ چوڑے ہیں جبکہ اس کا وزن صرف189 کلو ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ایسے مسافر جو جہاز کی دم میں بیٹھتے ہیں ،کسی بھی حادثے کی صورت میں ان لوگوں کے مقابلے میں چالیس فیصد زیادہ محفوظ ہوتے ہیں جو جہاز میں سب سے آگے یا پہلی قطار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن ( FAA ) کے قوانین کے مطابق ہر جہاز میں مسافروں کو نوے سیکنڈ کے اندر جہاز سے باہر نکالنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہیے کیونکہ اگر کسی وجہ سے آگ لگ جائے تو اسے پورے جہاز تک پھیلنے میں نوے سیکنڈ کا وقت لگتا ہے۔زیادہ تر ائیر لائن پائلٹوں کو صرف اس وقت کی ادائیگی کرتی ہے جب ہوائی سفر پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زمین پر موجود ان کے وقت کی کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔آپ جہاز میں پارہ اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے کیونکہ پارہ ( Mercury ) دھات جہاز کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔
اس کی تھوڑی سی مقدار جہاز کی المونیم باڈی کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ زیادہ تر جہاز المونیم سے تیار کردہ ہوتے ہیں۔آب و ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اضافے کی وجہ سے جہازوں کو لگنے والے جھٹکوں کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا۔