پیر‬‮ ، 21 جولائی‬‮ 2025 

ایسا اسلامی ملک جہاں مرنے کے بعد بھی لوگوں کیساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ؟ انوکھی روایت نے لوگوں پر سکتہ طاری کر دیا

datetime 23  اپریل‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جکارتہ(این این آئی)انڈونیشیا کے ایک گاؤں میں مقامی لوگ اپنے فوت ہونے والے عزیز واقارب کو دفن نہیں کرتے بلکہ زندہ انسانوں کی طرح ان کی خدمت خاطر کی جاتی ہے۔ انہیں کھانا دیا جاتا ہے اور سگریٹ پیش کیے جاتے ہیں۔عرب ٹی وی کے مطابق انڈونیشیا میں ’توراجان‘ گاؤں کے باشندوں کا کہنا تھا کہ وہ موت پریقین نہیں رکھتے۔ یہ طرز عمل نیا نہیں بلکہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ مرنے والے کو بھی زندہ ہی سمجھا جاتا ہے

مگر مردوں کی نقل وحرکت اور بول چال بند ہونے پر انہیں ‘بیمار’ سمجھا جاتا ہے۔لوگوں کا عقیدہ ہے کہ فوت ہونے والا شخص عالمی خارجی سے اب رابطے میں نہیں رہا ہے۔ وہ اسے بیماری سمجھتے ہیں پوری عمر اس کے جنازے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔لوگوں کا کہنا تھا کہ زندہ انسانوں کی طرح فوت ہونے والوں بھی ضروریات کی چیزیں خرید کرنے کے لیے رقم درکار ہوتی ہے، اس کے علاوہ انہیں بھوک بھی لگتی ہے اور وہ دیگر جسمانی حاجات بھی پوری کرتے ہیں،تورجان گاؤں میں رہنے والے ہر گھر میں ایک کمرہ ہا یال اپنے مردہ لوگوں کے لیے مختص کرتے ہیں، وہ سال ہا سال تک ان مردہ افراد کو کمروں میں رکھتے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ انہیں آواز دیتے ہیں۔وہ سال ہا سال تک مردوں کے ساتھ رہتے ہیں مگر ان کی موت پر یقین نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں خاموش ہونے والا شخص(مرد یا عورت)بیمار ہے اور اسے جلد شفا ملے گی۔فوت ہونے والے افراد کے جسم کو گلنے سڑنے سے بچانے کے لیے وہ فارمولین‘ نامی ایک سفوف استعمال کرتے ہیں۔ یہ سفوف ہر گھر میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔لوگ مردوں کے کمروں میں آتے، انہیں کھانا، پانی، سگریٹ پیش کرتے ہیں، عموما کھانا دن میں دو بار پیش کیا جاتا ہے۔ معمول کے مطابق مردوں کو نہلایا جاتا ہے اور ان کے کپڑے تبدیل کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس قضائے حاجت کے کے لیے خصوصی طور پر تیار

کردہ برتن چھوڑا جاتا ہے۔ گھر میں کوئی مہمان آئے تو اسے بھی مردوں کا درشن کرایا جاتا ہے۔ مہمان بھی فوت ہونے والوں سے سوال پوچھتا ہے۔مقامی لوگوں کا کہناتھا کہ انہیں فوت ہونے والے افراد جنہیں وہ زندہ سمجھتے ہیں کی ارواح کے کسی دوسرے مقام پر چلنے جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔ اس لیے وہ مردوں کے لیے بنائے گئے کمرے کو ہروقت روشن رکھتے ہیں۔ روشنی مایوسی اور تھکاوٹ کو دورکرنے کا بھی ذریعہ

ہے۔فوت ہونے کے بعد مردہ کے جنازے کا اہتمام سالوں جاری رہتا ہے۔ اس کے عزیز واقارب دنیا بھر سے آتے ہیں اور قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں۔میت کو اپنے ساتھ رکھنے کاایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ اس طرح لوگ اپنے پیاروں کی جدائی کے دکھ سے نجات پا لیتے ہیں۔ ماماک لیزا نامی ایک خاتون کہتی ہیں کہ وہ 12 سال سے

اپنے والد کے جسد خاکی کے ساتھ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ لاش کو محفوظ رکھنے سے پیاروں کی جدائی کے دکھ کا احساس کم ہوجاتا ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نیند کا ثواب


’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…