جکارتہ(این این آئی)انڈونیشیا کے ایک گاؤں میں مقامی لوگ اپنے فوت ہونے والے عزیز واقارب کو دفن نہیں کرتے بلکہ زندہ انسانوں کی طرح ان کی خدمت خاطر کی جاتی ہے۔ انہیں کھانا دیا جاتا ہے اور سگریٹ پیش کیے جاتے ہیں۔عرب ٹی وی کے مطابق انڈونیشیا میں ’توراجان‘ گاؤں کے باشندوں کا کہنا تھا کہ وہ موت پریقین نہیں رکھتے۔ یہ طرز عمل نیا نہیں بلکہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ مرنے والے کو بھی زندہ ہی سمجھا جاتا ہے
مگر مردوں کی نقل وحرکت اور بول چال بند ہونے پر انہیں ‘بیمار’ سمجھا جاتا ہے۔لوگوں کا عقیدہ ہے کہ فوت ہونے والا شخص عالمی خارجی سے اب رابطے میں نہیں رہا ہے۔ وہ اسے بیماری سمجھتے ہیں پوری عمر اس کے جنازے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔لوگوں کا کہنا تھا کہ زندہ انسانوں کی طرح فوت ہونے والوں بھی ضروریات کی چیزیں خرید کرنے کے لیے رقم درکار ہوتی ہے، اس کے علاوہ انہیں بھوک بھی لگتی ہے اور وہ دیگر جسمانی حاجات بھی پوری کرتے ہیں،تورجان گاؤں میں رہنے والے ہر گھر میں ایک کمرہ ہا یال اپنے مردہ لوگوں کے لیے مختص کرتے ہیں، وہ سال ہا سال تک ان مردہ افراد کو کمروں میں رکھتے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ انہیں آواز دیتے ہیں۔وہ سال ہا سال تک مردوں کے ساتھ رہتے ہیں مگر ان کی موت پر یقین نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں خاموش ہونے والا شخص(مرد یا عورت)بیمار ہے اور اسے جلد شفا ملے گی۔فوت ہونے والے افراد کے جسم کو گلنے سڑنے سے بچانے کے لیے وہ فارمولین‘ نامی ایک سفوف استعمال کرتے ہیں۔ یہ سفوف ہر گھر میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔لوگ مردوں کے کمروں میں آتے، انہیں کھانا، پانی، سگریٹ پیش کرتے ہیں، عموما کھانا دن میں دو بار پیش کیا جاتا ہے۔ معمول کے مطابق مردوں کو نہلایا جاتا ہے اور ان کے کپڑے تبدیل کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس قضائے حاجت کے کے لیے خصوصی طور پر تیار
کردہ برتن چھوڑا جاتا ہے۔ گھر میں کوئی مہمان آئے تو اسے بھی مردوں کا درشن کرایا جاتا ہے۔ مہمان بھی فوت ہونے والوں سے سوال پوچھتا ہے۔مقامی لوگوں کا کہناتھا کہ انہیں فوت ہونے والے افراد جنہیں وہ زندہ سمجھتے ہیں کی ارواح کے کسی دوسرے مقام پر چلنے جانے کا خوف لاحق رہتا ہے۔ اس لیے وہ مردوں کے لیے بنائے گئے کمرے کو ہروقت روشن رکھتے ہیں۔ روشنی مایوسی اور تھکاوٹ کو دورکرنے کا بھی ذریعہ
ہے۔فوت ہونے کے بعد مردہ کے جنازے کا اہتمام سالوں جاری رہتا ہے۔ اس کے عزیز واقارب دنیا بھر سے آتے ہیں اور قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں۔میت کو اپنے ساتھ رکھنے کاایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ اس طرح لوگ اپنے پیاروں کی جدائی کے دکھ سے نجات پا لیتے ہیں۔ ماماک لیزا نامی ایک خاتون کہتی ہیں کہ وہ 12 سال سے
اپنے والد کے جسد خاکی کے ساتھ ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ لاش کو محفوظ رکھنے سے پیاروں کی جدائی کے دکھ کا احساس کم ہوجاتا ہے۔