واشنگٹن (آن لائن) امریکی عدالت نے مجرم کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد وقت مقررہ سے دو گھنٹے قبل موخر کردیا۔ یوں ملزم سزائے موت پرعمل درآمد میں ساتویں بار بچ گیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست امابا سے تعلق رکھنے والے مجرم ٹومس آرتھر کو دی گئی سزائے موت پر مقامی وقت کے مطابق جمعرات کو دن گیارہ بجے عمل درآمد کیا جانا تھا مگر عدالت نے 9 بجے سزا پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اختلاف کے باعث اس پرعمل درآمد روک دیا۔عدالت نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ پہلے اس بات کا تعین کیا جائے کہ ملزم کی سزا پرعمل درآمد کیسے کیا جائے کیونکہ ریاست الامبا میں قتل کے ملزم کی سزائے موت کے لیے زہریلے انجیکشن کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں اورملزم کے وکیل نے زہریلے انجیکشن سے سزائے موت کو غیرانسانی قرار دیا تھا۔ خود ملزم نے بھی اپنی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے گولی مارنے کو زیادہ موزوں قرار دیا ہے۔امریکی اخبار کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب مجرم کی اس کے بیٹے سے بات کرائی گئی تھی۔ جمعرات کی صبح ٹومس آرتھر نے ناشتہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ملزم کے وکیل کا کہنا ہے کہ امریکا کی وفاقی عدالت رواں سال جنوری میں زہریلے انجیکشن سے سزائے موت کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ اس کے بعد اس طریقے سے کسی کو موت کی نیند سلانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ٹومس آرتھر پرالزام ہے کہ اس نیفروری 1982ئ کو ایک انجینیر ٹروی ویکر کو اس کے گھر میں گھس کر سوتے ہوئے اسے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ آرتھر کے مقتول کی بیوی کے ساتھ مراسم اس قتل کی وجہ بنے۔مقتول کی بیوہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے قاتل کو انشورینس پالیسی کے تحت 10 ہزار ڈالر کی رقم ادا کی تھی، جب کہ لائف انشورینس کی کل رقم 90 ہزار ڈالر ہے۔