بیجنگ (آئی این پی ) ایک چینی خاتون ماہر آثار قدیمہ نے شمال مغربی چین کے ٹیرا کوٹا جنگجوؤں کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مضمون میں سیاق و سباق سے ہٹ کر اس کا حوالہ دیا گیا ہے اور 8000سال لائف سائز فگرز پر مغربی اثر و رسوخ کے بارے میں اس کے ریمارکس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ میں جو بارہ اکتوبر کو جاری کی گئی کہا گیا ہے کہ ماہرین آثار قدیمہ نے ٹیرا کوٹا جنگجوؤں کے بارے میں آثار جو آج کے شیان (صوبہ شان شی )کے قریب پہلے شہنشا ہ کے مقبرے میں پائے گئے ہیں ممکن ہے قدیم یونان سے متاثر ہوں ۔مضمون میں شہنشاہ چن شائی وانگ کے مقبرہ کے مقام میوزیم کی سینئر ماہر آثار قدیمہ لائی شایو ز ین کے حوالے سے بتایاگیا ہے کہ ’’ ہم اب سوچتے ہیں کہ ٹیرا کوٹا آرمی اور مقام پر پائے جانیوالے شعبدہ باز اور کانسی کے مجسمے قدیم یونانی فن مجسمہ سازی و فنون لطیفہ سے متاثر ہیں تاہم لائی نے کہا کہ بی بی سی نے اس کا حوالہ سیاق و سباق سے ہٹ کر دیا ہے کیونکہ مضمون میں وہ بہت کچھ نظر انداز کیا گیا ہے جو انہوں نے بی بی سی کے رپورٹرز کو بتایا تھا ، لائی نے چینی خبررساں ایجنسی شنہوا کو بتایا کہ میرا خیال ہے کہ ٹیرا کوٹا جنگجو ممکن ہے کہ مغربی ثقافتی سے متاثر ہوں تا ہم یہ منفرد طورپر چینیوں نے بنائے ہیں ، بی بی سی نے مغربی تاثر کے بارے میں میرے ریمارکس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے اور میرے انٹرویو کے دوران دیئے گئے اہم نکات کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ لی نے کہا کہ سر زمین ، دستکاری اور روایتی تدفینی ثقافت جیسے مقامی قدرتی اور ثقافتی ماحول سب نے مل کر ٹیرا کوٹا جنگجو کے قیام میں مدد دی ہے ۔اس نے مزید کہا کہ مضمون میں اس کے فرمودات کو ویانا یونیورسٹی کے پروفیسر لکس نکل کے فرمودات سے پہلے پیش کئے گئے ہیں جس کی رائے خود اس کی رائے سے مختلف ہے ، لیکن اس سے یہ مترشہ ہوتا ہے کہ ہم دونوں کے خیالات ایک جیسے ہیں ۔مضمون کے مطابق پروفیسر نکل نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کوئی یونانی مجسمہ مقامیوں کو تربیت دینے کیلئے موقع پر موجود ہو ۔لی نے کہا کہ میں ایک ماہر آثار قدیمہ ہوں اور شہادت کو بڑی اہمیت دیتی ہوں ،میں نے ٹیرا کوٹا جنگجوؤں کی پشت پر کوئی یونانی نام نہیں دیکھا ہے جو میرے اس خیال کو تقویت پہنچاتا ہے کہ مقامی مجسمہ سازوں کی تربیت کیلئے کوئی یونانی دستکار نہیں تھا۔