پیرس(نیوزڈیسک)فرانس سے تعلق رکھنے والا ایک 44 سالہ شخص اپنی ٹانگ کے درد کے ساتھ ہسپتال پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا دماغ عام انسان کے دماغ سے آدھا ہے۔ڈاکٹر اس آدمی کو، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، دیکھ حیران و پریشان رہ گئے۔ڈاکٹر حیرت زدہ تھے کہ یہ شخص زندہ کیسے ہے۔ اس شخص کے معائنے کے بعد سائنس دان یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ذہانت اور دماغ کے سائز کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ لائنیل فیوئلٹ، جس نے اس شخص کے دماغ کا معائنہ کیا تھا، نے نیو سائنٹسٹ جریدے کو بتایا کہ اس شخص کا سارا دماغ چھوٹے سائز میں تھا۔ دماغ کے دائیں اور بائں Frontal، Parietal، Temporal اور Occipital Lobes سائز میں چھوٹی تھیں۔دماغ کی یہی جگہیں حرکت، حساسیت، زبان، بصارت، سماعت ، جذبات اور کچھ دوسری چیزوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ڈاکٹروں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ پیدائش کے بعد6 ماہ کی عمر میں اس بچے کے دماغ میں پانی کی تشخیص ہوئی تھی۔اس وقت ڈاکٹروں نے اس کے دماغ میں سوراخ کر کے وہ مواد نکالنے کی نالی وغیرہ ڈال کر جگہ بنائی تھی۔ 14سال کی عمر میں وہ نالی ہٹا دی گئی۔اس کے بعد 30 سال تک سارا مواد دماغ میں جمع ہوتا رہا ، جس سے دماغ کا 50 فیصد سے 75 فیصد حصہ ختم ہوگیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ شخص بالکل عام افراد کی طرح اپنی زندگی گذارتا رہا۔اسے معلوم بھی نہ تھا کہ اس کے دماغ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔اس کی فیملی ہے، دو بچے ہیں اور اچھی سرکاری نوکری ہے۔ بس ذرا سا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا آئی کیو لیول ذرا کم ہے۔ 2007 میں اس شخص کے دماغ کی تشخیص ہوئی تھی ۔ ڈاکٹروں نے اس کے دماغ کا کافی مواد نکال دیاہے۔اب 8 سال بعد ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ آدمی اس وجہ سے زندہ ہےکیونکہ اس کے دماغ نے خود کو پہچان لیا ہے۔جیسے ہی دماغ کا کوئی حصہ مرتا ہے دماغ کے دوسرے حصے اس مردہ حصے کا کام شروع کر دیتے ہیں