منگل‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ذیابیطس کی علامات 20 سال پہلے ہی سامنے آجاتی ہیں : طبی تحقیق

datetime 6  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جاپان(مانیٹرنگ ڈیسک) ذیابیطس ٹائپ ٹو کی علامات کسی مریض میں اس کی تشخیص سے برسوں سے پہلے ہی سامنے آجاتی ہیں۔ یہ دعویٰ جاپان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ خطرناک حد تک بلڈشوگر لیول میں اضافہ اور انسولین میں مزاحمت ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مرض میں مبتلا ہونے سے 20 سال قبل ہی سامنے آجاتی ہے، جس کے بعد مریض بتدریج

اس خاموش قاتل مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ذیابیطس کی خاموش علامات اور بچاؤ کی تدابیر 27 ہزار سے زائد افراد پر کی جانے والی تحقیق میں کہا گیا کہ صحت مند طرز زندگی کو اسی وقت اختیار کرلینا چاہئے جب کسی شخص کا بلڈ شوگر لیول بڑھنا شروع ہوجائے تاکہ ذیابیطس کے مرض سے خود کو بچاسکے۔ ایزاوا ہاسپٹل کی تحقیق میں 27 ہزار سے زائد ایسے افراد کا جائزہ 2005 سے 2016 کے درمیان لیا گیا جنھیں ذیابیطس کا مرض لاحق نہیں تھا۔ تحقیق کے آغاز پر جسمانی وزن اور بلڈشوگر کو ریکارڈ کیا گیا اور 11 سال بعد ایک ہزار سے زائد افراد ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہوگئے۔ تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ جن لوگوں میں یہ مرض سامنے آیا، ان میں جسمانی وزن، بلڈ شوگر لیول اور انسولین کی مزاحمت جیسے مسائل اس مرض کی تشخیص سے 10 سال پہلے ہی سامنے آگئے تھے۔ یہ عارضے بتدریج اتنے بڑھ گئے کہ وہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کی شکل اختیار کرگئے۔ مثال کے طور پر 10 سال پہلے جن افراد کا کھانے سے پہلے بلڈ شوگر لیول 101.5mg/dl تھا، ان میں ایک دہائی بعد ذیابیطس ٹائپ ٹو کی تشخیص ہوئی، جبکہ جن افراد میں بلڈشوگر لیول 94.5mg/dl تھی، وہ اس سے محفوظ رہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ کھانے سے پہلے 100mg/dl بلڈشوگر لیول نارمل ہے، سو سے 125 تک پری ڈائیبیٹس اور 126 سے زیادہ ہوجانے پر ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ 8 سے 10 گھنٹے تک کچھ کھانے یا پینے سے گریز کرنے کے بعد اس طرح بلڈشوگر لیول چیک کیا جاتا ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ جن افراد کا کھانے سے پہلے کا بلڈشوگر لیول 105mg/dl تھا، ان میں ذیابیطس کا مرض 5 سال بعد سامنے آیا جبکہ 110mg/dl بلڈشوگر لیول والے افراد ایک سال میں ہی ذیابیطس کے مریض بن گئے۔ اس تحقیق کے نتائج یورپی ایسوسی ایشن فار دی اسٹیڈ آف ڈائیبیٹس کانفرنس میں پیش کیے گئے۔

ذیابیطس سے قبل کی واضح علامات تو موجود نہیں مگر وہ کچھ ایسی ہوسکتی ہیں۔ جسم کے کچھ حصوں کی رنگت گہری ہوسکتی ہے اور ایسا عام طور پر گردن، گھٹوں، بغلوں یا کہنیوں میں ہوتا ہے۔ دیگر علامات میں بار بار پیشاب آنا، بہت زیادہ پیاس اور بھوک لگنا، چکر آنا، تھکاوٹ، نظر دھندلانا، خراشیں بہت دیر میں مندمل ہونا، ہاتھ یا پیروں میں درد یا سوئیاں چبھنے کا احساس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اگر آپ کو بھی ایسا کچھ محسوس ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں اور بلڈ گلوکوز کی اسکریننگ کروائیں۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…