امریکا (مانیٹرنگ ڈیسک) ماہرین صحت کاماننا ہے کہ کوئی بھی مرض خواہ عارضی ہویا دائمی انسانی نفسیات پراس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اہل خانہ کے تعاون سے مرض کی شدت کو سماجی تعلقات کے ذریعے نصف حد تک کم کرسکتے ہیں ۔ American Psychological Association کی حالیہ تحقیق اس نظرئیے کے حق میں ہے جس میں بتایا گیا ہے ۔
صحت یابی کے دوران سماجی میل جول مریض پر مثبت اثرات مرتب کرتاہے ۔ایک اورتحقیق کے مطابق ایسے مریض جو مرض کے دوران اہل خانہ اورحلقہ احباب کے ہمراہ ہوتے ہیں وہ جلدی صحت یابی کی طرف آتے ہیں یا نسبت ان لوگوں کے جنہیں علالت کے دوران تنہائی کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ سماجی صورتحال جیسے ثقافتی اثرات ،خاندانی رشتے اور سماجی تعاون صحت یابی کے ضمن میں مریض پر مثبت اثرت مرتب کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ایسے مریض جو خصو صاََ دائمی یا مہلک بیماریوں کاشکار ہوتے ہیں ان کے لئے جذباتی تعاون انتہائی اہم ثابت ہوتاہے ۔ یہ طریقہ فقط جسمانی صحت تک محدود نہیں بلکہ وہ افراد جو افراد ذہنی مسائل یا معذ وری کا شکار ہوتے ہیں انہیں ایسے اہل خانہ اور احباب کے ساتھ کی اشد ضرورت ہوتی ہے جوانہیں ان کے سابقہ رویوں کی بنیاد پرنہ پر کھیں بلکہ ان کی بیماری کی موجودہ صورتحال اور مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون اورنر می کا رویہ رکھیں ۔خاص طور پر دماغی مسائل سے گزرنے والے افراد کے روئیے غیر متوقع ہوتے ہیں اوربعض اوقات تشد د آمیز شکل اختیار کر جاتے ہیں جس کے سبب ان کے اطراف کے لوگوں کو ان رویوں کو سمجھنے اور انہیں سنبھالنے میں وقت کاسامنا کرناپڑتا ہے ۔اس لئے اس مسئلے کا بہترین حل یہی ہے کہ ان مسائل کاشکار افراد کی نفسیاتی کیفیات کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اوران کے ساتھ نرمی اور ہمدردی کامعاملہ رکھا جائے ۔
گو کہ یہ مریض کے اہل خانہ کے لئے جسمانی اور ذہنی طور پر آسان نہیں ہوتا اورمریض کو سنبھالنے کے لئے انہیں از خود مضبوط قوت ارادی اوراہمت درکار ہوتی ہے ۔ ہمیں اس امرکو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ہمارے اطراف میں موجود لوگ جوکسی قسم کی بھی بیماری کا شکار ہیں ان کی دادر سی اور مدد کے لئے ہمارا ماہر نفسیات ہونا لازم نہیں بلکہ یہ آپ کی بھر پور توجہ ،صبر اورحمدلی کے ذریعے باآسانی ممکن ہے ۔
مذہب اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو مزاج پر سی کوافضل عبادتوں میں شمار کیاجاتاہے ۔رشتے نبھانے اوروسعت قلبی کا مظاہرہ کرنے کے لیے مذہبی ،اخلاقی ،سماجی اور سب سے بڑھ کر انسانی تقاضوں اور ہدایات پر توجہ دینی چاہئے ۔اولاد کے لئے والدین کے حقو ق پڑوسیوں ، عز یزوقرابت داروں کے حقوق اوراللہ کی خو شنودی کو مد نظر رکھا جائے تو بہت سے لوگوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی بھلائی بھی ہوتی رہتی ہے ۔
دکھ اور تکلیف میں جس کسی کااحساس کیا جائے وہ اسے صحت یابی ملنے پریاد رہتا ہے اور اگر کسی انسان کو نہ یاد رہے تو اللہ تبارک تعالیٰ کی رحمتوں اور فضیلت سے مایوس نہیں ہوناچاہئے ۔دنیا کے تمام اہل درد سماجی کارکنوں خواہ وہ عبد الستا راید ھی ہوں ،مدد ٹر یسا ہوں یاروتھ فاوٴیہ تمام بشر ہمارے لئے رہتی دنیا تک مثال بنے رہیں گے ۔غور کریں توان تمام نے بیماروں ،غرباء اور مساکین کی ہمدردی ،علاج معالجہ اور دادرسی کے بعد انسانوں سے کیا چاہا ؟ اور انسان انہیں دے بھی کیا سکتے تھے ماسوائے دعاوٴں کے لہٰذا دعا دینے والے دلوں اور انسانی ہاتھوں کی تعداد بڑھا تے جائیے ۔ہم اس طرح دین وآخرت سنوار سکتے ہیں ۔