کراچی(این این آئی)ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں آبادی کا ایک بڑا حصہ متوازن خوراک سے محروم ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں قریب 45فیصد بچوں کی جسمانی نشو و نما متاثر ہو سکتی ہے۔اس رپورٹ کے اجرا کے بعد پاکستان میں کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نامی ادارے نے،
جس کا صدر دفتر واشنگٹن میں ہے، یہ رپورٹ حال ہی میں جاری کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا پانچواں حصہ متوازن خوراک سے محروم ہے، جب کہ سال2010میں 40.3 فیصد بچے ایسے تھے جنہیں جسمانی نشو و نما سے متعلقہ مسائل کا سامنا تھا۔ لیکن اب ایسے بچوں کی تعداد بڑھ کر 45فیصد ہوگئی ہے۔ پاکستان میں سماجی ترقی اور صحت کے شعبوں کے کئی ماہرین نے اس رپورٹ کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔اس ضمن میں سماجی ماہر ترقی عامر حسین نے کہاکہ فصلوں کی وجہ سے بھی خوراک کے معاملات شدید ہوئے ہیں۔ ماضی میں حکومت گندم اور چاول پر بہت سبسڈی دیتی تھی۔ دیہات میں لوگ زرعی پیداوار کا ایک حصہ اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتے تھے اور باقی بیچ دیتے تھے۔ تو انہیں ایک طرح سے فوڈ سکیورٹی حاصل تھی۔ لیکن اب رجحان زیادہ آمدنی والی فصلوں کا ہے۔ کسان کیش کراپ اگاتا ہے۔ ماضی میں اسے کھانے پینے کی جو اشیا بہت سستی ملتی تھیں، اب بہت مہنگے داموں ملتی ہیں۔ اس وجہ سے بھی غذا کا مسئلہ سنگین ہو رہا ہے۔ بچوں کی جسمانی نشو و نما کے مسائل کی ایک وجہ غیر صحت بخش اشیائے خوراک بھی ہیں۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں جسمانی نشو و نما اور نا مناسب خوراک کے مسائل انتہائی سنگین ہیں۔ بچوں کیلئے دودھ ایک متوازن غذا ہے لیکن آپ خود اپنے بچے کو دودھ کا گلاس دے کر دیکھیں کہ وہ کیا کہتا ہے۔ ہم لوگ دودھ، پھل،
سبزیاں اور دیگر صحت بخش اشیا خود کھاتے نہیں اور الزام کہیں اور لگا دیتے ہیں۔ ہمارے بچے چاکلیٹ، فرنچ فرائز اور دوسری کیمیکلز والی جو چیزیں کھا رہے ہیں، اس میں کس کا قصور ہے؟ ۔ماؤں کی تربیت کی بھی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کو اپنا دودھ دو سال تک پلائیں اور اس کے علاوہ مناسب غذا کا موضوع تو خود ایک
سائنس ہے۔ ہمارے ہاں سکولوں کے نصاب میں اس کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچوں میں بڑے پیمانے پر اس حوالے سے شعور پیدا ہو اور وہ اپنی کھانے پینے سے متعلق عادات بدلیں۔ کیمیکل سے بنی اشیا بچوں کیلئے نقصان دہ ہیں ۔ انہیں قدرتی خوراک کی ضرورت ہے۔