لندن(اے این این)برطانیہ کے طبی ماہرین کا کہناہے کہ زیادہ تر مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنے کے بجائے انھیں آرام کرنے کا مشورہ دیا جانا چاہیے۔پبلک ہیلتھ انگلینڈ یا پی ایچ ای کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کا ہر پانچ میں سے ایک نسخہ غیر ضروری ہوتا ہے کیونکہ کئی بیماریاں خود بخود دور ہوجاتی ہیں۔پی ایچ ای کا کہنا ہے کہ دواں کے زیادہ استعمال سے انفیکشنز کا علاج مشکل ہوجاتا ہے اور دوا کے خلاف مزاحمت کرنے
والے ‘سپر بگز’ پیدا ہوجاتے ہیں۔ ادارے کے مطابق مریضوں کو بھی انفیکشنز بڑھنے سے روکنے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔برطانیہ میں ہر سال 5000 افراد دوا کے خلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کا شکار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔بلڈ سٹریم ای کولی نامی خون کے انفیکشن کے شکار ہر 10 میں سے چار افراد کا علاج عام اینٹی باییوٹکس سے ممکن نہیں۔سنہ 2050 تک توقع ہے کہ دواں کے خلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنز کی وجہ سے اس سے زیادہ افراد ہلاک ہوں گے جتنے فی الحال کینسر سے ہوتے ہیں۔اینٹی باییوٹکس کا استعمال نمونیا، گردن توڑ بخار اور دیگر شدید انفیکشنز کے علاج میں خاصا ضروری ہے۔ لیکن پی ایچ ای کا کہنا ہے کہ یہ ہر بیماری کے علاج کے لیے ضروری نہیں ہے۔پی ایچ ای کے مطابق کھانسی اور حلق کی سوجن خود سے ٹھیک ہونے میں تین ہفتے لگتے ہیں جبکہ اینٹی باییوٹکس اس دورانیہ کو کم کرکے ایک یا دو دن پہ لا سکتی ہے۔پی ایچ ای کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر پول کوسفورڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمیں عام طور پر اور عام علامات میں اینٹی باییوٹکس کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم میں سے اکثر کو مختلف اوقات میں انفیکشنز ہوتی ہیں اور ہم اپنے مدافعتی نظام کی وجہ سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔پروفیسر پول کوسفورڈ سمجھتے ہیں
کہ مریضوں کو ڈاکٹر کے پاس اینٹی باییوٹکس کی توقع لے کر نہیں جانا چاہیے۔پیرا سٹا مول جیسی درد کش ادوایات استعمال کریں۔پروفیسر کوسٹفورڈ کا کہنا ہے کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ اس وقت اینٹی باییوٹکس استعمال کریں جب آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آنے والے مہینوں میں آپ کو وہ انفیکشن ہوجائے جس میں اینٹی بائیوٹیکٹس اثر نہیں کریں گی۔