اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس ٹیکنالوجی میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر سے پانی کے لئے گئے80فیصد نمونے مضر صحت پائے گئے،پارلیمنٹ ہاؤس اور لاجز کے 6 فلٹریشن پلانٹس میں سے3 کا پانی صحیح نہیں ،کوئٹہ میں پانی کی شدید قلت ہونے والی ہے اسلئے وہاں سے زراعت ختم کی جارہی ہے، شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں مضر صحت پانی زیادہ ہے۔
شفاف پینے کے پانی ملاوٹ سے پاک اشیا خورد نوش و دودھ کی فراہمی کیلئے چاروں چیف سیکرٹریز کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا اور پی ایس کیو سی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر کو کارکردگی موثر بنانے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ۔کمیٹی نے ملک میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کا بجٹ بڑھانے اور حکومت سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا الگ وزیر لگانے کی سفارش کر دی ۔جمعہ کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین سینیٹر عثمان سیف اللہ خان کی زیر صدارت ہوا جس میں ارکان کمیٹی سینیٹرز سردار فتح محمد محمد حسنی ، لیفٹیننٹ جنرل (ر)عبدالقیوم اور میاں محمد عتیق شیخ کے علاوہ وزارت سائنس ٹیکنالوجی اور اسے ماتحت اداروں کے اعلی حکام نے شرکت کی ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قومی ادارہ برائے اوشنو گرافی کے بورڈ آف گورنر کیلئے سینیٹر مرتضی وہاب کی نامزدگی کی منظوری دی گئی ۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان سٹینڈر زکوالٹی کنڑول اتھارٹی محمد خالد صدیق نے قائمہ کمیٹی کو ادارے کی کارکردگی بارے تفصیل سے آگاہ کیا۔ سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ٹی وائٹنر جانوروں کیلئے بھی مضر صحت ہے جو انسانوں کو پلایا جارہا ہے ۔ رکن کمیٹی لیفٹیننٹ جنرل(ر)عبدالقیوم نے کہا کہ ٹی وائٹنر بین الاقوامی معیار کے مطابق تیار کریں ناقص اشیا کی فراہمی کی وجہ سے جگر گردے اور معدے کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہاہے ۔ پولٹری کی خوراک میں مضر صحت اجزا شامل ہیں جو دیگر ممالک میں بین ہیں ۔
تحقیق کے ادارے کارکردگی کو بہتر کیں اور ایسے اقدامات اٹھائیں جن کی بدولت عوام کو شفاف پینے کا پانی اور مضر صحت اشیا کی فراہمی کو کنڑول کرنے میں مدد ملے ۔ چیئرمین کمیٹی عثمان سیف اللہ خان نے کہا کہ دریائے سندھ کے ساتھ پنجاب اور سندھ کے رہنے والے پانچ کروڑ عوام مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں ۔ کمیٹی کو بتایا کہ پچھلے دو سالوں میں 212 مضر صحت اشیا تیا رکرنے والے یونٹس بند کیے گئے ۔
آئل اور گھی پورے پراسس کے بغیر فروخت کیے جارہے تھے ۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ پیک اشیا کو(پی ایس کیو سی اے)ادارہ چیک کر سکتا ہے ۔ کھلی اشیا کو مقامی انتظامیہ چیک کر سکتی ہے ۔ ملاوٹ کرنے والوں کی سزاؤں اور جرمانوں میں بھی اضافہ کر دیا گیاہے اور سٹاف کی بھرتی کا عمل بھی جاری ہے ۔ پولٹری کی خوارک کے حوالے سے پنجاب حکومت سے ساتھ 12کیسز ہے ۔دو برانڈز پکڑے اور ان کو واپس بھی لینا پڑا۔پولٹری کی خوراک کو چیک کرنا ہمارے دائرہ کار میں نہیں ہے ۔
چیئرمین پی سی آر ڈبلیو آر محمد اشرف نے کمیٹی کو بتایا کہ پولٹری کی خوراک میں اینٹی بائیوٹک کثیر تعداد میں استعمال ہوتی ہے تاکہ پولٹری جلد سے جلد تیار ہو سکے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2002 سے پینے کے پانی کی مانیٹرنگ کا عمل شروع ہوا اور ملک بھر سے لئے گئے 80 فیصدنمونے مضر صحت پائے گئے ، دیہی علاقوں میں مضر صحت پانی بہت زیادہ ہے ۔ بلوچستان زیارت کا 100 فیصد پانی خراب ہے ۔ تین صوبوں میں پانی کے حوالے پالیسی اختیار کر لی ہے ۔ سندھ نے ابھی پالیسی ترتیب نہیں دی ۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر سند ھ کے مختلف علاقوں کے پانی کے نمونے لئے گئے تو 84 فیصد مضر صحت سامنے آئے ۔ ممبر پلاننگ سی ڈی اے نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اسلام آباد میں شفاف پانی کی فراہمی کیلئے 37فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ہیں سی ڈی اے کی اپنی لیب ہے جس میں ہر ماہ پانی چیک کیا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور لاجز کے 6 فلٹریشن پلانٹس میں سے3 کا پانی صحیح نہیں ہے ۔
قائمہ کمیٹی نے پی سی آر ڈبلیو آر کو ہر تین ماہ بعد اسلام آباد کے فلٹریشن پلانٹس کا پانی ٹیسٹ کرنے کی ہدایت کر دی ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پی سی آر ڈبلیو آر کو بجٹ د وملین تھا اور 14 ملین کر دیا گیاہے ۔ اور ملک میں ادارے کے 24 دفاتر ہیں بجٹ ناکافی ہے ۔ اراکین کمیٹی نے ادارے کا بجٹ بڑھانے کی سفارش کر دی تاکہ عوام کو پینے کا شفاف پانی مل سکے