نیویارک (مانیٹرنگ ڈیسک )ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے کہاہے کہ 10میں سے 9افراد آلودہ ہوامیں سانس لے رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ڈبلیوایچ اوکے شعبہ پبلک ہیلتھ اورماحولیات کی سربراہ ماریہ نائیرانے کہاہے کہ نئے اعدادوشمارکے مطابق یہ پوری دنیاکےلئے لمحہ فکریہ ہے ۔جبکہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے خبردارکیاہے کہ آلودہ ہواکامعاملہ شہروں میں بھی ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ زیادہ شدیدترہے جوکہ عالمی آبادی کےلئے خطرے کی علامت ہے ۔ماہرین کے مطابق غریب ممالک امیرممالک کی نسبت زیادہ خراب صورتحال کاشکارہیں ۔جس کے لئے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کانفاذ: ڈبلیوایچ اوکے شعبہ پبلک ہیلتھ اورماحولیات کی سربراہ ماریہ نائیرانے کہاہے کہ اس خراب ترین صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکومتوں کوگاڑیوں کی تعدادکم کرناہوگی ،کوڑاکرکٹ کوٹھکانے کےلئے اقدامات اورکھانے کے تیل کے معیارکوبہتربناناہوگا۔
آلودہ ہوا60لاکھ افرادکی ہر سال میں ہلاکت کی وجہ :ماریہ نائیرانے انکشاف کیاکہ ڈبلیوایچ اوکے اعدادوشمارکے مطابق 60لاکھ سے زیادہ افراد ہرسال آلودہ ہواکی وجہ سے جان کی بازی ہارجاتے ہیں جس کی وجہ بیرونی اوراندرونی آلودگی ہے ۔انہوں نے کہاکہ اندرونی الودگی بھی اتنی ہی نقصان دہ ہے بالخصوص ان ممالک میں جہاں کھاناپکانے کےلئےکوئلےجلایاجاتاہے جبکہ 90فیصداموات کم آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں ۔ان میں جنوبی ایشیااورمغربی پیسفک ریجن جن میں چین ،ملائیشیااورویتنام بھی شامل ہیں ۔ڈبلیوایچ اونے مختلف اعدادوشمارکے مطابق انکشاف کیاکہ اگرآلودہ ہواپرقابونہ پایاگیاتو شہروں میں جوکہ مرنے والوں کی تعداد 80فیصدہے وہ 90فیصدتک پہنچ سکتی ہے ۔
اس صورتحال پرورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے ماحول کو شدید خطرات لاحق ہیں، ہر 10 میں سے 9 افراد آلودہ فضاء میں سانس لے رہے ہیں جبکہ سالانہ 60 لاکھ افراد فضائی آلودگی سے ہونیوالی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہورہے ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فضائی آلودگی سے موت کا شکار ہونیوالے افراد میں سے 90 فیصد کا تعلق کم اور اوسط آمدنی والے ممالک سے ہے، جنوبی ایشیا، مغربی پیسیفک بشمول چین فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا فضائی آلودگی سے شدید متاثر ہے، بھارت میں سالانہ 6 لاکھ افراد جبکہ 37 ہزار افراد بنگلہ دیش میں خراب آب و ہوا کے باعث زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔عالمی ادارے کی رپورٹ میں پاکستان کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ پلاننگ کے بغیر، غیر مستحکم ترقیاتی منصوبوں اور مجوزہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پاور پلانٹس آب و ہوا کو بدترین سطح پر لے جائیں گے۔چین میں دھند ایک عام مسئلہ ہے، جہاں صنعتوں اور تیزی سے پھیلتے کاروں کے قافلے آب و ہوا کو زہر آلود کررہے ہیں، شنگھائی کا شمار چین کے شفاف ترین آب و ہوا والے شہروں میں ہوتا ہے تاہم وہ بھی فضائی آلودگی سے بچنے کی جدوجہد میں جتا ہوا ہے، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ڈبلیو ایچ او کی جانب سے پی ایم ریٹ (فائن پرٹیکولر میٹر) 25 مقرر کیا گیا تاہم 2015ء میں کئی شنگھائی میں بدترین آب و ہوا کا یہ عالم تھا کہ اس دوران پی ایم ریٹ 2.5 ریکارڈ کیا گیا۔
کراچی
کراچی کے شہریوں کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کے باعث سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے، ٹریفک جام کے دوران گاڑیوں سے نکلتا دھواں شدید متاثر کرتا ہے۔شہریوں نے مطالبہ کیا کہ دھواں دینے والی گاڑیوں پر پابندی لگائی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹریفک کا اژدھام بے قابو ہوتا جارہا ہے، دھواں دینے والی گاڑیوں سے متعلق بھی کسی قانون پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔
نئی دہلی
بھارتی شہری نئی دہلی کی رہائشی خاتون بچوں کی صحت سے متعلق انتہائی تشویش کا شکار ہیں جو مسلسل فضائی آلودگی کے باعث بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔
ڈھاکہ
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا میں بھی شہری گھٹن فضائی آلودگی سے بیماریوں کی شکایت کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ٹریفک جام کے دوران گاڑیوں کے کالے دھویں سے طبیعت میں انتہائی تھکن محسوس ہوتی ہے جبکہ جلد پر سفید دھبے میں دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ فضائی آلودگی ہوسکتی ہے۔
شنگھائی
چین کے بڑے شہر شنگھائی میں کوریئر سروس کے کارکن کا کہنا آلودگی سے صحت انتہائی متاثر ہورہی ہے، بعض اوقات لگتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہورہا ہے