لاہور(نیوزڈیسک )مرغیوں اور جانوروں کا گوشت کھانے والوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی،ایک تحقیقاتی رپورٹ میں مرغیاں اور مویشی پالنے والوں سے کہا گیا ہے کہ وہ جانوروں کو اینٹی بائیوٹکس ادویات کا استعمال کم سے کم کروائیں کیونکہ ان سے انسانی صحت کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے بڑے پیمانے پر استعمال سے بعض قسم کے انفیکشنز کا علاج تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ”دا ریویو آن اینٹی مائکروبیئل ریسسٹینس “ نے کہا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کی ایک حد مقرر کرنی ہوگی کیونکہ دنیا بھر میں نصف سے زیادہ اینٹی بائیوٹکس جانوروں میں ان کی تیز افزائش کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔چین میں حال ہی میں جانوروں میں ایسی ادویات کے حد سے زیادہ استعمال کے مضر نتائج کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔چینی سائنسدانوں نے کولسٹن جیسی اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیکٹریا کا پتہ چلنے کے بعد متنبہ کیا ہے کہ دنیا اینٹی بائیوٹکس کے مابعد دور میں داخل ہو رہی ہے۔خیال رہے کہ کولسٹن جیسی دوا اس وقت استعمال کی جاتی ہیں جب باقی تمام دوائیں ناکام ہو جاتی ہیں۔بعض معاملوں میں مویشیوں میں انفیکشن کا علاج کرنے کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر کا استعمال مانع امراض یا حفظ ماتقدم کے طور پر صحت مند جانوروں میں انفیکشن روکنے کے لیے یا متنازع طور پر وزن بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔یورپی یونین میں مویشیوں کی نشوونما کو تیز کرنے یا وزن بڑھانے کے لیے اینٹی بائیوٹکس کے استعمال پر 2006 سے پابندی عائد ہے۔رپورٹ کے مطابق اگر دنیا میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کی حالیہ شرح جاری رہتی ہے تو 2030 تک اس میں 67 فیصد کا اضافہ ہو جائے گا۔صرف امریکہ میں ہر سال مریضوں پر 3400 ٹن اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ 8900 ٹن جانوروں کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔اس رپورٹ کے نگراں اور ماہر معاشیات جم او نیل کے مطابق 2050 تک ہر سال ایک کروڑ افراد صرف دوا کی مدافعت کرنے والے انفیکشن سے ہلاک ہوں گے۔انہوںنے کہا ایک کلو کے جانور کے لیے 50 ایم جی اینٹی بائیوٹک کی حد معقول ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ خنزیر کا گوشت برآمد کرنے والے ملک ڈنمارک نے اس ہدف کو حاصل کر لیا ہے۔