اسلام آباد(نیوزڈیسک )تھائی لینڈ کے شمال مشرقی حصے میں ایک مقامی مرغوب غذا کو کچی مچھلی سے تیار کیا جاتا ہے، لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس علاقے میں جگر کے سرطان کی ایک بڑی وجہ یہی خوراک ہے اور ڈاکٹر اس بارے میں لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔تھائی لینڈ کے شمال مشرق میں واقع اسان سطح مرتفع غریب، خشک اور سمندر سے دور ہے۔ تھائی لینڈ کی ایک تہائی آبادی اسی خطے میں آباد ہے، جن میں بیشتر لاو¿ نسل سے ہیں۔یہ علاقہ مرچ مصالحے دار کھانوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے جو دستیاب اجزائے ترکیبی سے تیار کیے جاتے ہیں۔جہاں کہیں بھی جھیلیں یا دریا ہیں وہ ایک چھوٹی قسم کی مچھلی ’کوئی پلا‘ نامی ڈش کی تیاری میں استعمال کرتے ہیں۔ مچھلی کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے اور ہاتھوں کی مدد سے جڑی بوٹیوں، لیموں کے جوس اور زندہ سرخ چونٹیوں کے ساتھ مکس کیا جاتا ہے۔یہ ایک من پسند غذا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی۔کئی دہائیوں سے شمال مشرقی علاقے کی مخصوص آبادی میں جگر کے سرطان کی شرح غیرمعمولی طور پر بلند ہے۔مردوں میں سرطان کے تمام کیسز میں 50 فیصد جگر کے سرطان کے ہیں، جبکہ عالمی سطح پر یہ اوسط دس فیصد ہے۔جگر کے سرطان کی اس بلند شرح کا تعلق کچی مچھلی میں موجود ایک پیراسائیٹ لیور فلوک سے ہے۔جگر کے سرطان کی بلند شرح کا تعلق کچی مچھلی میں موجود ایک پیراسائیٹ لیور فلوک سے ہے لیکن ایسا محض گذشتہ دہائی میں ہی ہوا ہے کہ لوگوں کو ان کے کھانے کی عادات میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہے، یعنی ان جراثیم کو مارنے کے لیے کوئی پلا کو پکا کر کھانا۔ان کوششوں کا سہرا کھون کائن یونیورسٹی کی ٹراپیکل ڈیزیز ریسرچ لیبارٹری کے ڈاکٹر بان چوب سریپا کے سر ہے۔وہ کہتے ہیں: ’ہم گذشتہ 30 برسوں اپنی لیبارٹریوں میں اس تعلق کا مطالعہ کر رہے ہیں۔‘ہمیں علم ہوا ہے کہ لیور فلوک ایک ایسا کیمیائی مادہ پیدا کرتے ہیں جو قوت مدافعت کو متاثر کرتا ہے یعنی سوزش اور کئی برسوں بعد یہ سوزش سرطان کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔‘ان کی ٹیم نے یہ دریافت کیا کہ کچھ علاقوں میں 80 فیصد لوگ اس سے متاثر ہیں جن میں چار سال کے بچے بھی شامل ہیں، تاہم ان میں سرطان 50 سال کی عمر میں پہنچنے سے پہلے ظاہر نہیں ہوتا۔ تاہم جب ایک بار ظاہر ہو جائے تو مریض کے بچنے کی امید بہت کم ہوتی ہے۔یونیورسٹی کے ہسپتال میں تقریباً دو ہزار سالانہ جگر کے سرطان کی ایک مخصوص قسم (cholangiocarcinoma) کے علاج کے لیے آتے ہیں۔ان میں سے تقریباً 200 کا ہی سرجری یا جگر کے ساتھ بنی ہوئی رسولی نکال کر علاج ممکن ہوتا ہے جبکہ دیگر کو ان کی موت تک دردکش ادویات دی جاتی ہیں۔اس سے بچاو¿ صرف پرہیز ہے۔نئی نسل میں اس خوراک اور بیماری کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جا رہا ہےڈاکٹر باب چوب کچھ دیہات میں جہاں متاثرین کی شرح سب سے بلند ہے، صحت کی تعلیم کا پروگرام چلا رہے ہیں۔انھوں نے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے علاقائی طور طریقے اپنائے جن میں علاقے کے عمائدین کو اپنے ساتھ شامل کرنا، علاقائی موسیقی اور مزاح اپنانا بھی شامل ہیں۔انھوں نے اس سے متعلق گیت بھی تیار کیے ہیں جن میں اس بیماری سے متعلق بتایا جاتا ہے۔دراصل لاروا مچھلی کے گوشت میں پیدا ہوتا ہے اور یہ پھلتا پھولتا انسانی جگر میں ہے، اور اس کے انڈے متاثرہ شخص سے دوبارہ پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ بہت سارے عمر رسیدہ افراد تاحال یہ خوراک کھاتے ہیں۔جگر کے عاضے میں مبتلا 61 سالہ جونگ لک لونونگکوا کہتے ہیں: ’بعض اوقات میں پکاتا ہوں اور بعض اوقات بھول جاتا ہوں۔‘ڈاکٹر بان چوب کہتے ہیں: ’میرے خیال میں 60 فیصد لوگ جگر کے سرطان کی وجوہات سمجھتے ہیں لیکن دس فیصد ابھی بھی کچی مچھلی کھاتے ہیں، ہم شاید انھیں تبدیل نہیں کر سکتے اس لیے ہمیں ماحول تبدیل کرنے کی ضرورت ہے،مچھلیوں کی صفائی کی تاکہ اس سے کم سے کم لوگ متاثر ہوں۔‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں