اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک ایسی بیماری ہے جو2012میں سعودی عرب میں پائی گئی۔اس کے زیادہ تر کیسز مشرق وسطٰی میں ہی پائے گئے ہیں۔سعودی عرب کا سفر کرنے والے امریکی بھی اس سے مبتلا ہوئے۔اس وقت جنوبی کوریا میں یہ بیماری وبا کی صورت میں پھوٹ پڑی ہے۔یہ بیماری کرونانامی وائر س سے ہوتی ہے جو سارس سے ملتا جلتا ہے۔سارس بھی ایک بیماری ہے جس کا مخفف(سوویئر ایکیوٹ ریسپاریٹری سنڈروم) ہے۔اسکا پہلا کیس 2002میں جنوبی چین میں ر پورٹ ہواتھا۔اس بیماری سے37ممالک کے8ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے جن میں سے775 ہلاک ہوگئے۔اس بیماری سے شرح اموات10فیصد تک ہوتی ہے۔مرس کے زیادہ ترمریض تیز بخار اورنمونیا سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔یہ مرض زیادہ تر شوگر،گردوں اور سانس کے امراض میں مبتلا افراد میں پائی گئی ہے۔مرس کیونکہ وائرس ہے اس لیے اس کے علاج میں اینٹی بائیوٹکس موثر نہیں رہتیں۔مرس میں شرح اموات30فیصد تک ہوتی ہیں۔مرس کا وائرس چمگادڑ یااونٹ سے انسان میں منتقل ہوتاہے۔ایک انسان سے دوسرے میں کرونا وائرس کی منتقلی خون یا چھونے سے بھی ہوجاتی ہے تاہم چھونے سے لاحق ہونے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اس کے علاج کیلئے کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔اس سے بچنے کا حل یہ ہے کہ متاثرہ افراد سے دور رہاجائے۔پبلک ہیلتھ ماہرین کاکہناہے کہ مرس کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کے خطرات تو نہیں ہیں تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ حج کے دوران پھیل سکتی ہے۔