اسلام آباد(نیوز ڈیسک )امریکہ میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے انھوں نے پہلی بار کھوپڑی اور سر کی جلد کی کامیاب پیوندکاری کی ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق یہ کام انھوں نے 15 گھنٹے کے طویل آپریشن کے دوران انجام دیا۔اس دوران مریض کو نیا گردہ اور پِتہ بھی دیا گیا۔امریکی ریاست ٹیکسس کے 55 سالہ رہائشی جیمز بوئسن ایک غیر معمولی قسم کے کینسر میں مبتلا ہونے کے بعد سر کی جلد سے محروم ہوگئے تھے۔پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر ڈویلپر جیمر بوئسن ہاو¿سٹن میتھوڈسٹ اور دی اینڈرسن کینسر سینٹر میں سرجری کے بعد خاصے ’حیران‘ تھے۔سنہ 2006 میں جیمز بوئسن میں لیومیوسرکوما (leiomyosarcoma) نامی کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔کینسر کے علاج کے لیے کیموتھراپی اور ریڈیوتھراہی کی گئی تاہم اس کے باعث سر کی جلد مستقل طور پر خراب ہوگئی۔علاج کے دوران سر کی جلد اور کھوپڑی کو نقصان پہنچنے کے باعث ان کے دماغ کو بھی نقصان پہنچ سکتا تھا۔عام حالات میں ڈاکٹر ان کی کھوپڑی کو دوبارہ بنانے کے لیے تھری ڈی پرنٹنگ یا دھات کی پلیٹس کا استعمال کرسکتے تھے، لیکن ان کے گردے اور پتے کی بھی پیوندکاری ہوچکی تھی جس کے کے باعث وہ ادویات کا استعمال بھی کر رہے تھے اور ایک بار پھر یہ اعضا کام کرنا چھوڑ رہے تھے۔ان کے ناکارہ ہوتے ہوئے اعضا اور ادویات کے استعمال کے باعث ڈاکٹر سر کی جلد کی دوبارہ تیاری سے اجتناب کر رہے تھے اور کھوپڑی میں سوراخ کے باعث اعضا کی پیوندکاری نہیں ہوسکتی تھی۔جیمز بوئسن اب مذاق میں کہتے کہ اب ان کے سر پر اب اس وقت سے زیادہ بال ہیں جب وہ 21 سال کے تھےڈاکٹروں کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر جیسے سیلبر کا کہنا تھا کہ سوراخ 10 انچ بڑا تھا یعنی ’سر کے اوپر والا تقریباً پورا حصہ‘۔ان کا کہنا تھا: ’جب میں پہلی بار جم سے ملا تھا، تو مجھے پتا چلا کہ انھیں ایک نیا گردہ اور پِتہ چاہیے اور سرکی جلد اور کھوپڑی کی پیوند کار کی ضرورت ہے۔‘یہ ایک منفرد طبی صورتحال تھی جس کی وجہ سے ہمیں ایک پیچیدہ پیوندکاری کا موقع ملا۔‘آپریشن کرنے والے سرجنز کا کہنا ہے کہ انھوں نے چار سال قبل مشترکہ آپریشن کا خیال پیش کیا تھا لیکن انھیں ڈونرز کی ضرورت تھی۔جیمز بوئسن اب مذاق میں کہتے کہ اب ان کے سر پر اب اس وقت سے زیادہ بال ہیں جب وہ 21 سال کے تھے وہ کہتے ہیں:
’یہ ایک طویل سفر تھا اور میں تمام ڈاکٹروں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے میری پیوندکاریاں کی۔‘ہاو¿سٹن میتھوڈسٹ ہسپتال کے ڈاکٹر مائیکل کلیبو کہتے ہیں: ’یہ ایک بہت پیچیدہ سرجری تھی کیونکہ ہمیں مائیکروسرجری کا استعمال کرتے ہوئے ٹشوز کی پیوندکاری کرنا تھی۔‘وہ کہتے ہیں: ’ایک انچ کے 16ویں حصے سے بھی چھوٹی رگوں کی خوردبین کی مدد سے جوڑنا ذرا تصور کریں، یہ انسانی بال کی موٹائی کا نصف بنتا ہے اور اس کے لیے ایسے آلات استعمال کیے جو ایک عمدہ سوئس گھڑی کی تیاری میں استعمال کیے جاتے ہیں۔‘