کراچی (نیوزڈیسک)دنیا کی تقریباً ایک فیصد آبادی اس میں مبتلا ہے اور خواتین مردوں کی نسبت اس سے دوگنا زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔چالیس سالہ کرن کو اب سے چھ سال پہلےشدید خارش کی شکایت ہوئی جس کے دوران ان کی جلد پر سرخ نشانات بن گئے جس سے وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہو گئیں۔ابتدا میں وہ اسےعام الرجی ہی سمجھیں مگر کچھ ہی عرصے کے بعد یہ دوبارہ ہوئی تو انھیں تشویش ہوئی۔ انھوں نےڈاکٹرسےرجوع کیا اور علاج سے وقتی طور پر آرام بھی آگیا تاہم کچھ ہی ہفتوں یا مہینے بعد جسم کے کسی دوسرے حصے میں وہ ہی کیفیت دوبارہ نمودار ہو جاتی۔کِرن نے جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ میں ایم اے کیا ہے اور وہ ایک کمپنی میں کام کرتی ہیں۔ اس بیماری سے ان کا کام بری طرح متاثر ہونا شوع ہو گیا اور اکثر تکلیف کی شدت بہت بڑھ جاتی تھی۔کرن کو تقریباً تین سال قبل معلوم ہوا کہ اِنھیں ’ارٹیکیریا‘ ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی سنہ 2007 میں کی جانی والی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 24 فیصد افراد کو کسی نہ کسی شکل میں ’ارٹیکیریا‘ لاحق ہے، جبکہ دنیا کی تقریباً ایک فیصد آبادی اس میں مبتلا ہے اور خواتین مردوں کی نسبت اس سے دوگنا زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔انسانی جسم کا سب سےبڑا عضو اس کی جِلد ہوتی ہے اسی لیے جِلدی امراض اکثر زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ یہ پورے جسم پر پھیل سکتے ہیں۔پاکستان میں امراضِ جلد کےکئی ماہرین نےحال ہی میں یکجا ہوکر ارٹیکیریا سےمتعلق عوامی سطح پر شعور بیدار کرنےکی کوشش شروع کی ہے۔یہ بیماری نہیں بلکہ ایک طرح کی خرابی ہے جس میں جلد پر سرخ نشان بنتے ہیں، جلد پھول جاتی ہے اور اس میں شدید خارش ہوتی ہے۔ عام لوگ اسے ’چھپاکی‘ یا ’چھپاکا‘ کہتے ہیں