اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج خون کی کمی کا شکار بچوں کے بارے میں شعور بیدار کرنے کا دن منایا جارہا ہے اور خیبر پختو نخوا کے کسی بڑے ہسپتال میں ان مریضوں کے لئے کوئی وارڈ مختص ہوسکا ہے اور نہ ہی اس کی روک تھام کے لئے قانون بن سکا۔ خون کی کمی یعنی تھیلیسیمیاکا شکار مریضوں کے جسم میں پیدائشی طور پر خون نہیں بنتا، پاکستان میں بھی اس مرض کی بڑی وجوہات میں خاندان کے اندر کی شادیاں ہیں، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو پھر والدین ساری زندگی خون دلوانے کے لئے ان بلڈ ٹرانسفیوڑن سنٹرز لاتے ہیں اور اس کرب سے گذرتے ہیں اور یہ ہے اس صوبے کی اسمبلی جس میں موجودہ دور میں تحریک انصاف کی اکثریت ہے اوراسی لئے حکومت بھی ان کے پاس ہے وہ بھی صحت کے میدان میں بہتری کے وعدے کرکے حکومت میں ا?ئے تھے، تاہم اس دورمیں بھی کسی بڑے اہسپتال میں اس بیماری کے علاج کے لئے کوئی وارڈ نہیں بن سکا۔ ان اسمبلیوں میں بیٹھے یہ عوامی نمائندے اس بات سے باخبر ہیں کہ خیبر پختو نخوا میں 2013میں تھیلیسیمیا کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھ کر 8000ہوچکی ہے۔ پاکستان میں سالانہ ایسے سینکڑوں بچے پیدا ہوتے ہیں، جن میں تھیلیسیمیا کی بیماری ان کے ساتھ جنم لیتی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگراسمبلیوں میں قانون سازی کی جائے توان بچوں کوتھیلی سیمیا جیسے مہلک مرض سے بچایا جاسکتا ہے۔