اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) جدید سائنس کہتی ہے کہ ماہرین کسی بھی شخص کے مرنے کے بیس منٹ کے اندر اندر اس کا دل نکال کے کسی دوسرے زندہ شخص کے جسم میں لگا سکتے ہیں۔ اس عمل کو ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے تاریخ کی پہلی کامیاب ہارٹ ٹرانسپلانٹ سرجری دسمبر1967میں کی گئی تھی۔ مگر آنے والوں برسوں میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا یہ طریقہ پرانا طریقہ کہلائے گا کیونکہ ماہرین ایک ایسا طریقہ ایجاد کر چکے ہیں جس کے تحت ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا آپریشن نہ صرف آسان ہوجائے گا بلکہ زیادہ لوگوں کیلئے اس سرجری کا فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا۔
ہارٹ ٹرانسپلانٹ اس لئے مشکل ہے کیونکہ اس سرجری کیلئے دل کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس میں خون کی سپلائی بھی جاری ہونی چاہئے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اسے برف میں محفوظ کرلیا جائے اور بوقت ضرورت استعمال کیا جائے کیونکہ ایسے میں اس دوران خون کا بحال رہنا ناممکن ہے۔ ہارٹ ٹرانسپلانٹ فوری طور پر دل نکال کے کئے جاتے ہیں کیونکہ اگر دل میں دوران خون رک جائے گا تو اس سے اس عضو کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی وجہ اسے تبدیل کئے جانے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا ہے۔ لیکن اب ماہرین اس روایتی طریقے کو بدلنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ اب ماہرین کی کوشش ہے کہ کسی ایسے مردہ شخص کا دل بھی لگانے کیلئے کوئی طریقہ ایجاد کیا جائے جو کہ سرجری سے کافی پہلے مر چکا ہو۔ تجرباتی سطح پر یہ آپریشن کامیاب رہے ہیں اور اگر یہ زیادہ وسیع پیمانے پر بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایسے دنیا بھر میں تیس فیصد ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کو بچانا ممکن ہوجائے گا جو ڈونر کے انتظار میں ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں۔اس مقصد کیلئے دماغ کی موت کے بعد جسم کو وینٹی لیٹر پر زندہ رکھا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ میں سہولیات موجود ہیں جہاں پھر اس شخص کا دل نکال کے مخصوص درجہ حرارت پر محفوظ بنایا جاتا ہے۔ یہ تحقیق اور اس کی روشنی میں تجربہ اگرچہ کامیاب رہا ہے تاہم اصل مسئلہ ڈونرز کا ہے۔ دنیا بھر میں تھوڑے ہی لوگ ایسے ہیں جو کہ اپنا اعضا عطیہ کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف4فیصد حصہ اپنی موت کے بعد یہ قربانی دینے کو تیار ہوتا ہے ان میں سے بھی صرف تین فیصد افراد کے اعضا استعمال ہوپاتے ہیں کیونکہ ان عضو کو محفوظ بنانے کی سہولیات اور بعض اوقات انہیں نکالنے میں بروقت ناکامی بھی عطیئے کے اس عمل کو بیکار بنا دیتی ہے۔سڈنی میں تحقیق میں استعمال کیا جانے والا دل نہ صرف مردہ ہوچکا تھا بلکہ وہ بیس منٹ کیلئے خون کی سپلائی سے بھی محروم ہوچکا تھا۔ عام طور پر ایسے دل کو استعمال نہیں کیا جاتا ہے لیکن ماہرین نے اسے مخصوص درجہ حرارت پر محفوظ کئے جانے کے سبب استعمال کیا۔ اس کیلئے پہلے اس میں عطیہ کئے گئے خون کو داخل کیا گیا اور پھر جب یہ گرم ہوگیا تو اس کا جائزہ لیا گیا اور پھر کارکرردگی سے مطمئن ہونے پر اسے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ دل اب ایک خاتون کے سینے میں موجود ہے اور انہیں کامیابی سے جیتا دیکھ کے تین مزید مریض اس آپریشن سے گزر چکے ہیں۔
پہلی کامیاب ہارٹ ٹرانسپلانٹ سرجری
4
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں