بدھ‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

پہلی کامیاب ہارٹ ٹرانسپلانٹ سرجری

datetime 4  مئی‬‮  2015 |
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) جدید سائنس کہتی ہے کہ ماہرین کسی بھی شخص کے مرنے کے بیس منٹ کے اندر اندر اس کا دل نکال کے کسی دوسرے زندہ شخص کے جسم میں لگا سکتے ہیں۔ اس عمل کو ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے تاریخ کی پہلی کامیاب ہارٹ ٹرانسپلانٹ سرجری دسمبر1967میں کی گئی تھی۔ مگر آنے والوں برسوں میں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا یہ طریقہ پرانا طریقہ کہلائے گا کیونکہ ماہرین ایک ایسا طریقہ ایجاد کر چکے ہیں جس کے تحت ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا آپریشن نہ صرف آسان ہوجائے گا بلکہ زیادہ لوگوں کیلئے اس سرجری کا فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا۔
ہارٹ ٹرانسپلانٹ اس لئے مشکل ہے کیونکہ اس سرجری کیلئے دل کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس میں خون کی سپلائی بھی جاری ہونی چاہئے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اسے برف میں محفوظ کرلیا جائے اور بوقت ضرورت استعمال کیا جائے کیونکہ ایسے میں اس دوران خون کا بحال رہنا ناممکن ہے۔ ہارٹ ٹرانسپلانٹ فوری طور پر دل نکال کے کئے جاتے ہیں کیونکہ اگر دل میں دوران خون رک جائے گا تو اس سے اس عضو کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی وجہ اسے تبدیل کئے جانے کا کوئی فائدہ نہیں رہتا ہے۔ لیکن اب ماہرین اس روایتی طریقے کو بدلنے کیلئے کام کررہے ہیں۔ اب ماہرین کی کوشش ہے کہ کسی ایسے مردہ شخص کا دل بھی لگانے کیلئے کوئی طریقہ ایجاد کیا جائے جو کہ سرجری سے کافی پہلے مر چکا ہو۔ تجرباتی سطح پر یہ آپریشن کامیاب رہے ہیں اور اگر یہ زیادہ وسیع پیمانے پر بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایسے دنیا بھر میں تیس فیصد ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کو بچانا ممکن ہوجائے گا جو ڈونر کے انتظار میں ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں۔اس مقصد کیلئے دماغ کی موت کے بعد جسم کو وینٹی لیٹر پر زندہ رکھا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکہ میں سہولیات موجود ہیں جہاں پھر اس شخص کا دل نکال کے مخصوص درجہ حرارت پر محفوظ بنایا جاتا ہے۔ یہ تحقیق اور اس کی روشنی میں تجربہ اگرچہ کامیاب رہا ہے تاہم اصل مسئلہ ڈونرز کا ہے۔ دنیا بھر میں تھوڑے ہی لوگ ایسے ہیں جو کہ اپنا اعضا عطیہ کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف4فیصد حصہ اپنی موت کے بعد یہ قربانی دینے کو تیار ہوتا ہے ان میں سے بھی صرف تین فیصد افراد کے اعضا استعمال ہوپاتے ہیں کیونکہ ان عضو کو محفوظ بنانے کی سہولیات اور بعض اوقات انہیں نکالنے میں بروقت ناکامی بھی عطیئے کے اس عمل کو بیکار بنا دیتی ہے۔سڈنی میں تحقیق میں استعمال کیا جانے والا دل نہ صرف مردہ ہوچکا تھا بلکہ وہ بیس منٹ کیلئے خون کی سپلائی سے بھی محروم ہوچکا تھا۔ عام طور پر ایسے دل کو استعمال نہیں کیا جاتا ہے لیکن ماہرین نے اسے مخصوص درجہ حرارت پر محفوظ کئے جانے کے سبب استعمال کیا۔ اس کیلئے پہلے اس میں عطیہ کئے گئے خون کو داخل کیا گیا اور پھر جب یہ گرم ہوگیا تو اس کا جائزہ لیا گیا اور پھر کارکرردگی سے مطمئن ہونے پر اسے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ دل اب ایک خاتون کے سینے میں موجود ہے اور انہیں کامیابی سے جیتا دیکھ کے تین مزید مریض اس آپریشن سے گزر چکے ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)


ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…