آج کے انسان کے پاس جتنی زیادہ سہولتیں ہیں یہ اتنا ہی پریشان ہے۔ جب ہم دنیا میں مہنگائی کی بات کرتے ہیں‘ جب ہم انسان کی پریشانیوں کی لسٹ مرتب کرتے ہیں تو ہر انسان کی اپنی اپنی پریشانیاں ہوتی ہیں‘ ایک انسان کو اگر اولاد نہ ہونے کی پریشانی ہے تو دوسرے کو اولاد کے برے کاموں کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو بے روزگاری نے پریشان کر رکھا ہے تو کوئی روزگار ملنے کے بعد کام میں آنے والی پریشانیوں سے تنگ ہے لیکن اس کے باجود ایک پریشانی جو ہر آدمی کو تنگ کرتی ہے چاہے وہ عام آدمی پاکستان میں ہے یا امریکا میں یا برطانیہ میں۔ وہ پریشانی ہے مہنگائی ۔ عام آدمی مہنگائی سے بہت تنگ ہے ۔جب ہم مہنگائی کی بات کرتے ہیں تو پوری دنیا کے انسان اس بات پر پریشان ہیں کہ ان کے ملک میں دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ ہر انسان کی پریشانیاں جس طرح مختلف ہوتی ہیں اسی طرح ہر انسان کا مہنگائی کے بارے میں فلسفہ بھی مختلف ہے ۔ہر عام و خاص مہنگائی کو اپنے طریقے سے بیان کرتا ہے لیکن جب ہم ترقی پذیر ممالک کی بات کرتے تو ان کا مہنگائی کے بارے میں جو فلسفہ ہے وہ کہتے ہیں کہ آبادی میں اضافہ اس کی بڑی وجہ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ چونکہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے جو اشیاء مارکیٹ میں آتی ہیں تو سپلائی کے مقابلہ میں خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور جو زیادہ قیمت ادا کرتا ہے وہ اشیاء لے جاتا ہے۔ جب وہ اشیاء لے کر آگے بیچتا ہے تو وہ اس پر اپنی خرید کے علاوہ جو اخراجات آتے ہیں اور پھراپنا منافع شامل کر کے فروخت کرتا ہے جس سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ تمام عمل لوگوں کاخودساختہ کیا ہوا عمل ہے ۔ جو مہنگائی ہوتی ہے وہ ایسی ہے نہیں جتنی بنائی جاتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے عام لوگوں کا مہنگائی کے بارے میں یہ فلسفہ عام ہے کہ ان کے ملک کے سرمایہ دار سرمائے کو اکٹھا کر کے دوسرے ممالک میں لے گئے اور ان کے ملک میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے ان کو جکڑ رکھا ہے اور اس نظام میں امیر آدمی امیر تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ غریب آدمی غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ نظام ہے۔ اس نظام نے ان لوگوں کہ مہنگائی کے جن کے حوالے کر دیا ہے لیکن اس دنیا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جن کے حکمرانوں نے اپنے اچھے طرز حکومت سے اس مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کر رکھا ہے۔ ان ممالک نے دنیا کے باقی ممالک کیلئے ایک مثال قائم کردی ہے کہ دنیا میں مہنگائی کوئی ایسا بے قابو گھوڑا نہیں ہے جس کو قابو میں نہ لایا جا سکے ۔ اگر ہم دنیا کے سستے ترین ممالک کی بات کرتے ہیں تو ان ممالک کی فہرست میں کروشیا کا نمبر ایک ہے۔
کروشیا آبادی اور رقبے کے لحاظ سے یورپ کا26واں بڑا ملک ہے‘ اس ملک کی شرح خواندگی99%ہے۔ کروشیا نہ تو زرعی ملک ہے اور نہ ہی صنعتی ملک ہے‘ اس ملک میں یہ دونوں شعبے موجود ہیں لیکن ان کی شرح آمدن بہت کم ہے جبکہ اس کی آمدن کا بڑا ذریعہ یہاں کی سیاحت ہے۔ کروشیا یورپ کے خوبصورت ممالک میں سے ایک ہے‘ اس لئے دنیا اور یورپ سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کروشیا کا رخ کرتی ہے۔کروشین کی گورنمنٹ نے بغیر کسی قابل ذکر معاشی اصلاحات اور سرمایہ کاری کے مہنگائی کے جن پر قابو پالیا ہے جس کی وجہ صرف ایک کنٹرول سسٹم ہے۔ اس سسٹم میں ٹیکس کی لوکیشن کو فعال بنایاجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا ملک میں صحیح استعمال کیا جس سے لوگوں کا گورنمنٹ پر اعتماد بڑھا اور انہوں نے ٹیکس دیا جس سے دنیا میں مہنگائی کو تمام فلسفوں کو ناکام کیا لیکن اس کے باوجود وہاں پر ایک سسٹم موجود ہے اور ملک کا ہر شخص اس پر عمل درآمد کرتا ہے۔ کروشیا میں جب سیاحتی سیزن شروع ہوتا ہے اس وقت قیمتوں میں کچھ اضافہ ہوتا ہے لیکن یہ اضافہ بھی دنیا کے کسی بھی سیاحتی ملک میں سیاحتی موسم میں ہونے والے اضافے سے کم ہوتا ہے۔ کروشیا دنیا کا سستا ترین ملک ہے جس کی وجہ کروشیا نہ تو معاشی طورپر بہت مضبوط ملک ہے اور نہ ہی دفاعی طورپر بہت مضبوط ہے لیکن اس کے باوجود کروشیا نے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کر کے رکھا ہوا ہے اور اس بے قابو جن کو انسانوں کی زندگی کے ساتھ کھیلنے کیلئے کھلا نہیں چھوڑا کہ اس سے تنگ آ کر لوگ خودکشی کرنا شروع کردیں۔
انڈونیشیا دنیا کے سستے ترین ممالک کی لسٹ میں دوسرے نمبرپر ہے۔ اگر ہم انڈونیشیا کو دیکھیں تو یہ1945کو آزاد ہوا اور یہ 1700جزیروں پر مشتمل ہے۔ انڈونیشیا ساؤتھ ایشیاء کے معاشی طورپر مضبوط ممالک میں سے ایک ہے۔ انڈونیشیا میں بھی extrisanstگروپ موجود ہیں جو کہ ملکی سیکورٹی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ اس کے باوجود انڈونیشیا نے بے پناہ معاشی ترقی کی لیکن اگر ہم انڈونیشیا کی معاشی ترقی کو بنیاد بنا کر یہ کہیں کہ یہ معاشی طورپر ایک مضبوط ملک ہے تو یہ غلط ہوگا کیونکہ دنیا میں بہت سے ملک موجود ہیں جو معاشی طورپر بہت مضبوط ہیں لیکن ان ممالک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے والا سسٹم ناکام ہوگیا ہے اور یہ ممالک مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر سکتے ۔
پیرو ایک قدیم ملک ہے ‘دنیا کے سستے ترین ممالک کی لسٹ میں یہ تیسرے نمبرپر ہے‘ پیرو کا ذریعہ معاش اس کی زراعت ٗ صنعت اور سیاحت ہے۔ اس میں تعلیم کا ریٹ بہت اچھا ہے۔ پیرو کی شرح خواندگی نوے فیصد ہے۔ پیرو ایک جمہوری ملک ہے۔ اس کی آبادی کا چھبیس فیصد غربت کے لیول پر رہتا ہے لیکن مضبوط معاشی نظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیرو کا شمار دنیا کے سستے ترین ممالک میں ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ جہاں کا مضبوط کنٹرول سسٹم ہے جس نے ہر طرح کے مشکل حالات کے باوجود پیرو میں مہنگائی کے جن کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔ پیرو کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔
مراکش ایک اسلامی ملک ہے جس کے رقبہ میں زیادہ تر حصہ صحراؤں پر مشتمل ہے لیکن ایک تاریخی شہر ہے۔ اس ملک میں سیاحت کے لئے تو بہت پرکشش مقامات موجود ہیں اور دنیا بھر کے سیاح اس ملک کا رخ کرتے ہیں لیکن معاشی اعتبار سے کوئی پرکشش incentiveنہیں ہیں لیکن پھر بھی مراکش دنیا کے سستے ترین ممالک کی لسٹ میں چوتھے نمبرپر ہے جس میں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں لیکن اس ملک میں بھی پرائس کنٹرول سسٹم بہت فعال ہے۔ مراکش میں شرح خواندگی ستاون فیصد ہے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ معاشی طورپر مضبوط ہیں اور اس کا فائدہ بھی عام لوگوں کو پہنچایا جاتا ہے۔
اسی طرح یونان بھی یورپ کا ایک خوبصورت اور تاریخی ملک ہے۔ یونان معاشی طورپر مستحکم ملک ہے جس کی بڑی وجہ یونان میں سیاحت ہے ۔یونان خوبصورتی کے لحاظ سے یورپ کے ماتھے کا جھومر ہے اور دنیا بھر سے سیاح یورپ کا رخ کرتے ہیں جس کی بڑی وجہ یونان میں سیاحت کو بڑے اچھے طریقے سے دنیا میں پروموٹ کیا گیاہے۔
جب ہم دنیا کے سستے ترین ممالک کا پاکستان کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان زرعی اعتبار سے بھی ان ممالک سے بہتر ہے ‘صنعتی لحاظ سے بھی پاکستان میں بہت پوٹینشل ہے جبکہ جو چیز ان تمام ممالک میں کامن ہے وہ یہ کہ یہ ممالک سیاحتی اعتبار سے بہت پرکشش ہیں لیکن اگر ہم پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو ان سے کمپیئر کرتے ہیں تو یہ علاقے کسی بھی لحاظ سے ان ممالک سے کم نہیں تو پھر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر عام لوگوں کا قتل عام کررہا ہے اور ہر روز بہت سے لوگ اپنی زندگی کی بازی اس جن کے سامنے ہار جاتے ہیں تو اس جن کواگر ہمارے حکمران بوتل میں بند نہیں کر پا رہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی نیت ٹھیک نہیں ۔یہ حکمران صرف اپنے سرمایے کو محفوظ بنانے کیلئے تو ہر کام کر جاتے ہیں اور غریبوں کی زندگی بچانے کیلئے ان کے پاس کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی سوچ
دنیا کے سستے ممالک میں ایسا کیا جو پاکستان میں نہیں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں