پشاور۔۔۔۔حال ہی میں سامنے آنے والی ایک خبر میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شعبہ اعلیٰ تعلیم نے ’گندھارا ہندکو اکیڈیمی‘ کو فنڈز کی فراہمی کے طریقہ کار میں آڈٹ کا کوئی نظام نہ ہونے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔خیبر پختونخوا حکومت نے ہندکو زبان و ادب کیلیے کوشاں گندھارا ہند کو بورڈ کے تحت گندھارا ہندکو اکیڈیمی کے قیام کے لیے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے سال 2014 و 2015 میں سات کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔یہ رقم گندھارا ہندکو اکیڈیمی کو کتابوں کی اشاعت، تحقیق اور انتظامی اخراجات کے لیے تین سال کے عرصے میں دی جائے گی۔
خیبرپختونخوا کی زبانیں
صوبہ خیبرپختونخوا میں پشتو اور ہندکو سمیت کل 24 زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم ان میں سے اکثر زبانیں حکومتی سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں
ہندکو اس صوبے کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے مگر دوسری کئی زبانوں کی طرح یہ زبان نے بھی اب تک کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کر پائی۔ اگرچہ صوبے کی کئی دیگر اقلیتی زبانوں کے مقابلے میں ہندکو زبان سے کئی بڑے بڑے شعرا اور ادیب منسلک رہے ہیں مگر پھر بھی اس زبان میں اعلیٰ پائے کا ادب تحریری صورت میں موجود نہیں اور نہ ہی اب تک ہندکو زبان کا کوئی معیاری رسم الخط بن سکا ہے۔ایسی صورت حال میں موجودہ حکومت کی جانب سے مہیا کی گئی رقم قابل ستائش قدم ہے تاہم یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کہیں اس اقدام کا سہارا لیکر موجودہ حکومت اپنی ایک اہم آئینی ذمہ داری سے پیچھا چھڑانے کاکوئی سامان تو نہیں کر رہی ہے۔خیبرپختونخوا کی گزشتہ حکومت نے سال 2011 کو خیبرپختونخوا مقتدرہ برائے علاقائی زبانیں ایکٹ 2011 کے تحت صوبے میں بولی جانی والی زبانوں کے تحفظ و ترقی کے لیے ’خیبرپختونخوا مقتدرہ علاقائی زبانیں‘ کے قیام کو قانونی شکل دی تھی۔معدوم ہوتی ان مقامی زبانوں میں زیادہ تر کا رسم الخط موجود نہیں ہے
اس قانون کے تحت صوبے میں اکثریتی زبان پشتو کے ساتھ ساتھ چار دیگر زبانوں سرائیکی، ہندکو، کھوار اور کوہستانی کو پرائمری جماعتوں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانا تھا۔ ایسا بتدریج کیا جانا تھا تاکہ ان زبانوں میں کورس کی کتابیں تیار کی جاسکیں۔ اس وقت صوبے کے نصابی شعبے اور نصابی کتب کے ادارے کے پی کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے کچھ ابتدائی کام شروع بھی کیا تھا لیکن بعد میں موجودہ حکومت کے آنے کے بعد یہ کام روک دیا گیا۔خیبرپختونخوا جہاں اپنے قدرتی حسن کے لیے مشہور ہے وہیں یہ صوبہ لسانی اور ثقافتی تنوع کا ایک خوبصورت نمونہ بھی ہے۔ یہاں پشتو سمیت 24 زبانیں بولی جاتی ہیں اوریہ ساری زبانیں یہاں کی تاریخی اور آبائی زبانیں ہیں۔اگر جنوبی ضلعوں میں سرائیکی بولی جاتی ہے تو مرکزی پشاور اور ہزارہ میں ہندکو اب بھی موجود ہے۔ اسی طرح چترال میں کھوار کے ساتھ ساتھ 11 اور زبانیں کلاشا، پالولا، گوارباتی، دمیلی، یدغا، شیخانی وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ ضلع کوہستان میں کوہستانی اور شینا زبانیں جب کہ سوات کے کوہستان میں توروالی، گاؤری اور اوشوجو جبکہ دیر کوہستان میں کلکوٹی اور گاؤری زبانیں بولی جاتی ہیں۔یہ سبھی ’چھوٹی زبانیں‘ ختم ہوتی جارہی ہیں اور اپنے ساتھ ان چھوٹی مگر آبائی قومیتیوں کی تاریخ، حکمت اور ادب کے خزینوں کو بھی فنا کر رہی ہیں۔ کوہ ہندوکش کی یہ ساری آبائی زبانیں ریاستی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے بہت جلد معدوم ہورہی ہیں اور یوں ہمارا ایک تاریخی ورثہ ہم سے چھن رہا ہے۔ ان ساری زبانوں کے خاطرخواہ تحریری مواد کی عدم موجودگی کی وجہ سے دیسی تاریخ اور ادب بس زبانی طور پر ہی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا ہے۔ لیکن دوسری زبانوں میں تعلیم، میڈیا اور ابلاغ کے جدید ذرائع کی ترقی سے یہ زبانیں اب ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل نہیں ہورہی بلکہ اگلی نسل پر ختم ہورہی ہیں۔
علاقائی زبانوں کے لیے مقتدرہ کا قیام
خیبرپختونخوا کی گزشتہ حکومت نے سال 2011 کو خیبرپختونخوا مقتدرہ برائے علاقائی زبانیں ایکٹ 2011 کے تحت صوبے میں بولی جانی والی زبانوں کے تحفظ و ترقی کے لئے ’خیبرپختونخوا مقتدرہ علاقائی زبانیں‘ کے قیام کو قانونی شکل دی تھی تاہم اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا
ایسے میں ان زبانوں کے تحفظ اور ترقی کی ضرورت شدید تر ہو جاتی ہے۔ سابقہ حکومت نے علاقائی زبانوں کے لیے قانون سازی کرکے ایک مقتدرہ ادارے کے قیام کی تجویز کرکے صوبے کے اس مٹتے تاریخی ورثے کو بچانے کی اہم کوشش کی تھی۔مگر تین سالوں سے زیادہ کا عرصہ بیت جانے کے باوجود یہ ادارہ اب تک نہیں بنا مگر خدشہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت گندھارا ہندکو اکیڈیمی بنا کر اس آئینی ذمہ داری سے پہلوتہی کر رہی ہے جس کے تحت علاقائی زبانوں کے لیے مقتدرہ بنانا تھا۔ایسے اقدامات سے ان اقلیتی قومیتیوں میں ناراضگی بڑھ رہی ہیاور محرومیت کا احساس شدت اختیار کررہا ہے۔ مانا کہ ان قومیتیوں کی پشتو اور ہندکو بولنے والوں کی طرح سیاسی نمائندگی نہیں لیکن پھر بھی صوبے کا سارا قدرتی حسن اور قدرتی وسائل ان قومیتیوں کے علاقوں میں موجود ہیں۔ اور نہ ہی یہ لوگ کسی سے کم پاکستانی ہیں۔خیبرپختونخوا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ علاقائی زبانوں کے اس مقتدرہ کو جلد از جلد قائم کرکے اپنا آئینی فرض پورا کرے۔