نئی دہلی۔۔۔۔الیکشن میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ اروند کیجریوال اور نریندر مودی کے درمیان نہ یہ پہلا مقابلہ تھا اور نہ آخری۔ دونوں کی محاذ آرائی جاری رہے گی اور اصل آزمائش یہ ہوگی کہ ایک میان میں دو تلواریں کیسے ایڈجسٹ ہوتی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق یہ ایک طرح کی گوریلا جنگ ہے جو اب سرکاری دفاتر اور دہلی کی سڑکوں پر لڑی جائے گی، عام آدمی پارٹی اب وہ وعدے پورے کرنے کی کوشش کریگی جو بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ پورے نہیں کیے جا سکتے اور جو پورے ہوسکتے ہیں ان پر عمل کرنے میں اگر وفاقی حکومت سے پورا تعاون نہ ملے تو کسی کو زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
عام آدمی پارٹی کا انتخابی نشان جھاڑو ہے۔ تو دہلی کی سڑکوں پر اس شدت سے جھاڑو کیوں چلی؟ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس میں خود وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی ہاتھ ہے، جب سے انھوں نے ہندوستان کو صاف ستھرا بنانے کی مہم شروع کی ہے، وہ اور ان کی پوری پارٹی ہر جگہ ہاتھ میں جھاڑو اٹھائے نظر آتے ہیں!وہ تقریروں میں کہتے ہیں کہ ’میں ملک کا وزیر اعظم ہوں۔۔۔اور میں جھاڑو لگا رہا ہوں۔۔۔اس کام میں ملک کے ہر شہری کو تعاون کرنا ہوگا۔‘لگتا ہے کہ یہ پیغام ووٹروں کے دلوں میں اتر گیا، جب وزیر اعظم کے ہاتھ میں جھاڑو ہے تو عام آدمی کو کیا دقت ہو سکتی ہے۔ اور شروعات انھوں نے دلّی سے ہی کی ہے۔!نریندر مودی نے اروند کیجریوال کو فون کرکے ہار تسلیم کی اور مکمل تعاون کا بھروسہ دلایا
لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے تو کانگریس کو اس زمرے سیباہر ہی رکھیے۔ الیکشن میں کانگریس کی آج کل صرف ہار ہی ہوتی ہے۔ سوا سال پہلے ریاست میں اس کی حکومت تھی، اب اسمبلی میں اس کے ارکان ڈھونڈنے سے ہی نظر آئیں گے اور پارٹی پھر ہار کا سبب معلوم کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے گی۔کمیٹی اس نتیجے پر پہنچے گی کہ کانگرس نے کام تو اچھے کیے لیکن عوام تک اپنا پیغام نہیں پہنچا سکی اور پارٹی کو اب اپنے ورکروں کو دوبارہ متحرک کرنے کے لیے نئی موثر حکت عملی وضع کرنا ہوگی۔ لیکن اس رپورٹ میں یہ کہنے کی ہمت کوئی نہیں کرے گا کہ ضرورت ورکروں کو نہیں لیڈر کو متحرک کرنے کی ہے۔ملک میں سیاسی تجزیہ نگار شاید ہی کسی ایک بات پر اتنا اتفاق کرتے ہوں جتنا راہل گاندھی کی پس پردہ قیادت پر کرتے ہیں: وہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں! فی الحال ان کی قیادت بالکل ان اچھے دنوں کی طرح ہے جن کا وعدہ پارلیمانی انتخابات سے پہلے نریندر مودی ہر لمحہ کرتے تھے۔ یہ امید تو سب کو ہے کہ کبھی نہ کبھی اچھے دن آئیں گے، یہ کسی کو نہیں معلوم کہ کب!
اور اس پر جب کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی یہ غیر معمولی بیان دیتی ہیں کہ ’الیکشن میں جو عوام چاہتے ہیں وہ ہی ہوتا ہے‘ تو یہ پوچھنے کا دل تو کرتا ہی ہے کہ آپ کو اب خبر ہوئی ہے؟
کانگریس کو ایک بھی سیٹ پر سبقت حاصل نہیں ہے
بہرحال، ایک نئے انداز کی سیاست کا دور شروع ہورہا ہے۔ گذشتہ برس جب کیجریوال وزیر اعلی بنے تھے کانگریس کی وفاقی حکومت سے دلّی پولیس کے کچھ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ منوانے کے لیے یوم جمہوریہ پریڈ سے پہلے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے تھے، اس مرتبہ ان کا کہنا ہیکہ دھرنے پر وہ اب بھی بیٹھیں گے لیکن آخری ہتھیار کے طور پر۔اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں نریندر مودی کے برابر میں ہی گھر لینا چاہیے، دونوں کو ایک دوسرے کے گھر کے سامنے دھرنے پر بیٹھنے میں آسانی ہوگی، نہ عام لوگوں کی زندگی میں خلل پڑے گا نہ دونوں کو خود زحمت ہوگی!
خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو