پیر‬‮ ، 15 ستمبر‬‮ 2025 

جانئے پاکستان کے ایک ایسے ریلوے اسٹیشن کی داستان جس نے بیس سال سے ریل گاڑی کی شکل نہیں دیکھی، کلک کر کے پڑھیں

datetime 30  جنوری‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جانئے پاکستان کے ایک ایسے ریلوے اسٹیشن کی داتان جس نے بیس سال سے ریل گاڑی کی شکل نہیں دیکھی، کلک کر کے پڑھیں

سکرنڈ ریلوے اسٹیشن سے ہوسکتا ہے کہ آخری ٹرین کو چلے 24 سال کا عرصہ ہونے والا ہو مگر اس کی

عمارت اب بھی مقامی افراد کے لیے اجتماع کا مقام ہے۔ وقت نے اسٹرکچر پر اثرات ضرور مرتب کیے ہیں مگر اس کی شان و شوکت اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے جو کہ برصغیر بھر میں تعمیر کیے جانے والی ریلوے عمارات کا خاصہ ہے اور یہ ریلوے لائنوں سے جڑی یادیں اور جذبات کو جگا دیتا ہے۔

ہم کراچی سے نوابشاہ جارہے تھے جب میں نے سکرنڈ کے قصبے میں کچھ دیر رکنے کا فیصلہ کیا۔ سکرنڈ کی جانب بڑھتے ہوئے گلیوں کی دیواروں نے میری نظروں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی جو کہ سب کی سب ٹیلی کام پیکجز کے اشتہارات سے بھری ہوئی تھیں۔

سکرنڈ اسٹیشن اس پرسکون قصبے کے مضافات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اس اسٹیشن کی باہری دیواروں پر مقامی سیاسی لیڈرز کے پوسٹرز اور نعرے بھرے پڑے تھے اور جب میں اندر داخل ہوا تو میں نے احاطے کے وسط میں لوگوں کے ایک گروپ کو کھڑے ہوئے پایا۔ یہاں ہونے والا شور شرابہ کسی چھوٹے بازار کی یاد دلاتا ہے اور درحقیقت یہ موبائل فونز کی چھوٹی سی مارکیٹ ہی بن چکی ہے۔ ہماری قوم میں موبائل فون ڈیوائسز کا کنٹرول سے باہر اشتیاق ہے اور اس طرح کی مارکیٹیں ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کے لیے ہمیں سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

عمارت کے اندر یہاں وہاں لوگوں کا ہجوم چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں احاطے میں گھوم رہا تھا اور باہر موجود ریلوے ٹریک غائب جبکہ وہاں بھینسیں سردیوں سے ٹھٹھرتی سورج کی شعاعوں میں آرام کررہی تھیں۔ اسٹیشن کے ایک کونے میں پارسل گودام ہے جسے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ وہاں اب وسط میں پول ٹیبل رکھی ہوئی ہے اور کچھ بچے ہمارے سامنے کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہاں کچھ تاریک کیلنڈرز بھی دیواروں پر لٹکے ہوئے تھے جبکہ ایک بلب چھت سے لٹک رہا تھا۔

ہم وہاں سے باہر نکلے۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کہ کیا ہمارا تعلق ریلوے ہیڈکوارٹرز سے ہے اور کیا ہم سکرنڈ میں ریلوے سروس کی بحالی کے لیے کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں۔

اپنے ماضی میں سکرنڈ اسٹیشن ایک مصروف جنکشن تھا جس کی تعمیر 1936 میں ہوئی تاکہ بھٹ شاہ اور نوابشاہ کی دیگر بستیوں کو باقی ملک کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں سے آخری ٹرین 1991 میں نکلی تھی جس کے بعد پاکستان ریلوے نے اس خطے سے آمدنی نہ ہونے کے باعث سروس کو ختم کردیا۔ تاہم مقامی افراد اب بھی پرامید ہیں کہ ایک دن یہ سروس پھر بحال ہوگی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



انجن ڈرائیور


رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…