اسلام آباد۔۔۔۔۔پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے کہا ہے کہ وہ کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی فہرست عام کرے تاکہ عوام کو اس سلسلے میں آگاہی حاصل ہو سکے۔ یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو قانونی کتب میں غلطیوں کے مقدمے کی سماعت کے دوران دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ حکومت شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ایسی تنظیموں کے بارے میں علم ہو جنھیں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کو ملک میں کالعدم قرار دی گئی شدت پسند تنظیموں اور اُن کی تعداد کے بارے میں علم نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کو اس بات کا علم بھی نہیں ہے کہ وہ جن تنظیموں کو چندہ دے رہے ہیں آیا حکومت نے اُنھیں کالعدم قرار تو نہیں دیا۔ عدالت نے حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ اس فہرست کا تبادلہ دوست ممالک سے بھی کرے تاکہ اگر وہاں ان تنظیموں کے دفاتر ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ آج ہی حکومت سے ہدایات لے کر آئیں کہ وہ کتنے عرصے میں کالعدم تنظیموں کی فہرست متعلقہ اداروں کی ویب سائٹ پر لگا دے گی۔ اٹارنی جنرل نے اس ضمن میں عدالت سے مہلت طلب کی ہے۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ ملک میں 72 کالعدم تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ لیکن چند ہی روز بعد انھوں نے کہا کہ صرف اس وقت صوبہ پنجاب میں 95 کے قریب کالعدم تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ تاہم اُنھوں نے ان تنظیمیوں کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق کالعدم قرار دی گئی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے علیحدہ گروپ بنا لیے ہیں اور اُنھیں کالعدم قرار دینے سے متعلق خفیہ ادارے اور انسداد دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی ادارے کے اہلکار مل کر اس بارے میں تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں۔ قانونی کتب میں اغلاط پر عدالت کا کہنا تھا کہ جب قانون کی کتابوں میں اتنی غلطیاں ہوں گی تو پھر لوگوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ شدت پسندی میں ملوث ہونے پر کیا سزا مل سکتی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کی کتابوں کی اشاعت غلطیوں سے پاک ہو۔