گوانتانامو بے ۔۔۔۔۔’گوانتانامو ڈائری‘ اس حراستی مرکز کے ایک ایسے قیدی کی کہانی ہے جو اب تک یہاں سے رہائی نہیں پا سکا۔یہ ڈائری دس سال پہلے لکھی گئی تھی اور اب ایک طویل قانونی عمل کے بعد شائع ہوئی ہے۔محمد اولد صلاحی موریطانیہ کے شہری ہیں۔ انھیں 13 سال قبل موریطانیہ کے ایک تھانے میں طلب کیا گیا تھا جہاں سے ان کو دوسرے ممالک سے تعاون کے حوالگی کے غیر قانونی طریقے (رینڈیشن) سے امریکہ کے حوالے کر کے گوانتانامو بھیجا گیا۔حراستی مرکز میں ان سے پْرتشدد طریقے سے بار بار تفتیش کی گئی جس کا ریکارڈ انھوں نے روزانہ کی بنیاد پر رکھا اور انگریزی میں لکھے گئے، 466 صفحات پر مشتمل اس ریکارڈ کو انھوں نے دس سال پہلے یعنی سنہ 2005 میں مکمل کیا تھا۔تاہم گوانتانامو کے قواعد کے مطابق ان کی تحریر ’کلاسیفائڈ‘ یعنی سکیورٹی وجوہات کی بنا پر خفیہ رہی۔صلاحی کے وکلا نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور چھ سال سے زیادہ عرصے کی قانونی لڑائی کے بعد بالآخر یہ تحریر ان کے حوالے کر دی گی۔تاہم امریکی حکام کا اصرار تھا کہ اس تحریر کے کچھ حصوں کو حذف کرنا لازمی ہو گا اور سنسر شدہ مواد میں اہلکاروں اور ملزموں کے ناموں کے علاوہ تشدد اور تفتیشی طریقوں کی کئی تفصیلات شامل ہیں۔
میں نے صرف وہ لکھا جو میں نے خود دیکھا ہے اور جو مجھ پر گزری ہے۔ میری کوشش رہی ہے میں حقائق کو نہ بڑھا چڑھا کر پیش کروں اور نہ ہی ان کو نظر انداز کروں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ میں امریکی حکام، اپنے بھائیوں اور اپنے آپ کو حقیقی اور منصفانہ طریقے سے بیان کروں۔
محمد اولد صلاحی
اس کتاب میں سنسر شدہ حصوں کو واضح طور پر کالے خانوں کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔صلاحی کے وکلا اور کتاب کے ناشر کا کہنا ہے کہ ان کو امید ہے کہ کبھی نہ کبھی اس ڈائری کو غیرسنسر شدہ شکل میں شائع کیا جا سکے گا اور اس سلسلے میں ان کی کوششیں جاری ہیں۔کتاب کو امریکی میں لٹل جان اور برطانیہ میں کینن گیٹ پبلشرز نے شائع کیا ہے اور اس کے اقتباسات برطانوی اخبار ’دا گارڈیئن‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں۔45 سالہ صلاحی گذشتہ 13 سال سے گوانتانامو میں قید ہیں حالانکہ سنہ 2010 میں امریکہ کے ایک جج نے ان کی حبس بیجا کی درخواست منظور کر کے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔تاہم اوباما انتظامیہ نے جج کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی اور چار سال بعد بھی وہ حراست میں ہیں۔گوانتانامو کے فوجی کمیشن کے سابق وکیل استغاثہ کرنل مورس ڈیوس کے مطابق صلاحی کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کیونکہ ان کے اعترافی بیانات ان پر تشدد کے نتیجے میں لیے گئے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ صلاحی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنایا جا سکا اور نہ ہی انن پر اب تک فرد جرم تک عائد کی جا سکی ہے، لیکن پھر بھی ان کی رہائی رْکی ہوئی ہے۔گوانتانامو کے حراستی مرکز میں اب بھی صلاحی سمیت 122 افراد قید ہیں
صلاحی کا کہنا تھا کہ وہ سنہ 1990 میں افغانستان گئے تھے جہاں وہ مجاہدین کے ساتھ ملے تھے اور بعد میں انھوں نے القاعدہ سے بھی بیعت کر لی تھی۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ 1992 میں وہ جرمنی چلے گئے تھے اور اس کے بعد سے ان کا ان تنظیموں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس دوران ان تنظیموں کے لیے بھرتی کے کام میں مصروف تھے۔صلاحی اپنی ڈائری کے آخری حصے میں کہتے ہیں: ’میں نے صرف وہ لکھا جو میں نے خود دیکھا ہے اور جو مجھ پر گزری ہے۔ میری کوشش رہی ہے میں حقائق کو نہ بڑھا چڑھا کر پیش کروں اور نہ ہی ان کو نظر انداز کروں۔ میں نے کوشش کی ہے کہ میں امریکی حکام، اپنے بھائیوں اور اپنے آپ کو حقیقی اور منصفانہ طریقے سے بیان کروں۔‘کرنل مورس ڈیوس کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ ڈائری زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں تاکہ گوانتانامو کی حقیقت لوگوں کو معلوم ہو سکے۔
’گوانتانامو کے قیدی نے اپنے اوپر ڈھائے گئے ظلم کی داستان لکھ ڈالی،کلک کر کے تفصیلات پڑھیں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں