انڈونیشیا کی سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ بامبانگ سوئلیستیو نے کہا: ’ہمیں جو کوآرڈینیٹس دیے گئے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ جہاز سمندر کی تہہ میں ہو گا۔’یہ ابتدائی اندازہ ہے، اور یہ تلاشی کی کارروائیوں کی دوران تبدیل ہو سکتا ہے۔‘کمپنی کے بیان کے مطابق جہاز پر 17 بچوں سمیت 155 مسافر سفر کر رہے تھے، اس کے علاوہ دو پائلٹ اور عملے کے پانچ دوسرے ارکان بھی جہاز پر سوار تھے۔اتوار کو انڈونیشیا کی فضائیہ اور سنگاپور کے جہازوں نے بحیر? جاوا میں طیارے کی تلاش کا عمل اندھیرا ہو جانے اور خراب موسم کے باعث روک دیا تھا۔ درجنوں کی تعداد میں بحری جہاز اور کشتیاں جہاز کی تلاش میں حصہ لے رہی ہیں۔ایئر ایشیا نے کہا ہے کہ صبح 7:24 پر اڑنے کے 45 منٹ بعد ایئر بس اے 200۔320 کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا تھا۔انڈونیشیا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے مطابق: ’ہمارا بنیادی ہدف طیارے کو تلاش کرنا ہے اور ہر ممکنہ محکمے اور متعلقہ ممالک سے رابطے میں ہیں۔ اس میں جہاز کا ڈیزائن تیار کرنے والے شعبے کے اہلکار، جہاز تیار کرنے والی فرانسیسی کمپنی کے اہلکار، ایئر ایشیا اور ملائیشیا کے آپریشنل اہلکار شامل ہیں۔‘بامبانگ سوئلیستیو کے مطابق انڈونیشیا کے 12 بحری جہاز، تین ہیلی کاپٹر اور پانچ فوجی ہوائی جہاز ریسکیو کارروائی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملائیشیا نے ایک سی ون تھرٹی جہاز، تین بحری جہاز مہیا کیے ہیں جبکہ سنگاپور کا ایک سی وی تھرٹی جہاز بھی شامل ہے اور آسٹریلیا بھی جہاز کو تلاش کرنے میں مدد کر رہا ہے۔سنیچر کو یہ جہاز ملائیشیا کی کمپنی ایئر ایشیا کی ذیلی کمپنی ایئر ایشیا انڈونیشیا کی ملکیت ہے اور انڈونیشیا ہی میں رجسٹرڈ ہے جو مسافروں کو سستی پروازیں فراہم کرتی ہے۔ جہاز کی پرواز کا دورانیہ تین گھنٹے تھا لیکن یہ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد غائب ہو گیا۔اس سال ملائیشیا کی سرکاری ہوائی کمپنی ملائیشیا ایئرلائن کے دو طیارے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ البتہ اس سے پہلے ایئرایشیا کے کسی طیارے کو کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آیا۔مارچ میں ملائیشیا ایئرلائن کی پرواز ایم ایچ 370 جکارتہ سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی تھی اور اس کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ اس طیارے پر 239 افراد سوار تھے۔ جب کہ پرواز ایم ایچ 17 جولائی میں یوکرین کے اوپر سے اڑتے وقت مار گرائی گئی تھی، جس سے اس پر سوار تمام 298 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ملائیشیا کی نجی ہوائی کمپنی ایئر ایشیا انڈونیشیا کے مطابق جہاز پر 162 افراد سوار ہیں جن کی اکثریت کا تعلق انڈونشیا سے ہے۔پترا ایئر ایشیا انڈونیشیا کے مطابق جہاز پر سوار 149 افراد کا تعلق انڈونیشیا سے، تین کا تعلق جنوبی کوریا سے، ایک برطانوی، ایک ملائیشیا اور ایک کا تعلق سنگا پور سے ہے۔جہاز کے عملے کے سات ارکان میں سے چھ ملائیشیا اور ایک کا تعلق فرانس سے ہے۔زیادہ تر مسافر سیاح ہیں جو تفریح کی غرض سے سنگاپور جا رہے تھے۔ایک مقامی ٹرانسپورٹ اہلکار نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ پرواز نمبر 8501 QZ کا رابطہ جکارتہ ایئر پورٹ سے مقامی وقت کے مطابق صبح سوا چھ بجے کے بعد سے منقطع ہے۔ٹرانسپورٹ اہلکار ہادی مصطفیٰ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ لاپتہ ہونے سے قبل طیارے نے مقررہ راستے سے ہٹ کر ایک اور راستے پر جانے کی اجازت طلب کی تھی، جب کہ کمپنی نے کہا ہے کہ جہاز نے خراب موسم کی وجہ سے اپنی پرواز کے راستے میں تبدیلی کی درخواست کی تھی۔انڈونیشیا کے وزارتِ ٹرانسپورٹ نے کہا کہ جہاز کے پائلٹ نے درخواست کی تھی جہاز کو 38 ہزار فٹ کی بلندی پر بادلوں کے اوپر پرواز کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم جہاز کے عملے نے کسی خرابی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔جہاز پر چھ غیرملکی بھی سوار ہیں، جن میں سے تین کا تعلق جنوبی کوریا سے اور ایک ایک کا فرانس، ملائیشیا اور سنگاپور سے ہے۔انڈونیشیا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے ترجمان نے کہا کہ جہاز کا رابطہ کالیمانتان اور جاوا کے درمیان منقطع ہوا۔جکارتہ میں بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ زیادہ تر مسافر سیاح تھے جو تفریح کی غرض سے سنگاپور جا رہے تھے۔
ملائیشیا کا طیارہ سمندر میں ہے،ماہرین
پترا جا یہ۔۔۔۔ انڈونیشیا کی فضائیہ اور سنگاپور کے جہازوں نے ملائیشیا کی نجی ہوائی کمپنی ایئر ایشیا کے لاپتہ ہونے والے مسافر طیارے کی تلاش دوبارہ شروع کر دی ہے جس میں درجنوں کی تعداد میں بحری جہاز اور کشتیاں حصہ لے رہی ہیں۔انڈونیشیا کے امدادی ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ دستیاب معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاز سمندر کی تہہ میں ہو گا۔ تاہم طیارے کے حادثے کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد ابھی تک سامنے نہیں آ سکے۔ سورابایا کے حکام نے کہا ہے کہ امدادی ٹیمیں اب بحیرہ جاوا پہنچی ہیں۔ خدشہ ہے کہ جہاز یہاں پر حادثے کا شکار ہو کر ڈوب گیا تھا۔اتوار کو انڈونیشیا کے شہر سورابایا سے سنگاپور ایئر ایشیا انڈونیشیا کے مسافر بردار طیارے کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا تھا۔
انڈونیشیا کی سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ بامبانگ سوئلیستیو نے کہا: ’ہمیں جو کوآرڈینیٹس دیے گئے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ جہاز سمندر کی تہہ میں ہو گا۔’یہ ابتدائی اندازہ ہے، اور یہ تلاشی کی کارروائیوں کی دوران تبدیل ہو سکتا ہے۔‘کمپنی کے بیان کے مطابق جہاز پر 17 بچوں سمیت 155 مسافر سفر کر رہے تھے، اس کے علاوہ دو پائلٹ اور عملے کے پانچ دوسرے ارکان بھی جہاز پر سوار تھے۔اتوار کو انڈونیشیا کی فضائیہ اور سنگاپور کے جہازوں نے بحیر? جاوا میں طیارے کی تلاش کا عمل اندھیرا ہو جانے اور خراب موسم کے باعث روک دیا تھا۔ درجنوں کی تعداد میں بحری جہاز اور کشتیاں جہاز کی تلاش میں حصہ لے رہی ہیں۔ایئر ایشیا نے کہا ہے کہ صبح 7:24 پر اڑنے کے 45 منٹ بعد ایئر بس اے 200۔320 کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا تھا۔انڈونیشیا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے مطابق: ’ہمارا بنیادی ہدف طیارے کو تلاش کرنا ہے اور ہر ممکنہ محکمے اور متعلقہ ممالک سے رابطے میں ہیں۔ اس میں جہاز کا ڈیزائن تیار کرنے والے شعبے کے اہلکار، جہاز تیار کرنے والی فرانسیسی کمپنی کے اہلکار، ایئر ایشیا اور ملائیشیا کے آپریشنل اہلکار شامل ہیں۔‘بامبانگ سوئلیستیو کے مطابق انڈونیشیا کے 12 بحری جہاز، تین ہیلی کاپٹر اور پانچ فوجی ہوائی جہاز ریسکیو کارروائی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملائیشیا نے ایک سی ون تھرٹی جہاز، تین بحری جہاز مہیا کیے ہیں جبکہ سنگاپور کا ایک سی وی تھرٹی جہاز بھی شامل ہے اور آسٹریلیا بھی جہاز کو تلاش کرنے میں مدد کر رہا ہے۔سنیچر کو یہ جہاز ملائیشیا کی کمپنی ایئر ایشیا کی ذیلی کمپنی ایئر ایشیا انڈونیشیا کی ملکیت ہے اور انڈونیشیا ہی میں رجسٹرڈ ہے جو مسافروں کو سستی پروازیں فراہم کرتی ہے۔ جہاز کی پرواز کا دورانیہ تین گھنٹے تھا لیکن یہ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد غائب ہو گیا۔اس سال ملائیشیا کی سرکاری ہوائی کمپنی ملائیشیا ایئرلائن کے دو طیارے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ البتہ اس سے پہلے ایئرایشیا کے کسی طیارے کو کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آیا۔مارچ میں ملائیشیا ایئرلائن کی پرواز ایم ایچ 370 جکارتہ سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی تھی اور اس کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ اس طیارے پر 239 افراد سوار تھے۔ جب کہ پرواز ایم ایچ 17 جولائی میں یوکرین کے اوپر سے اڑتے وقت مار گرائی گئی تھی، جس سے اس پر سوار تمام 298 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ملائیشیا کی نجی ہوائی کمپنی ایئر ایشیا انڈونیشیا کے مطابق جہاز پر 162 افراد سوار ہیں جن کی اکثریت کا تعلق انڈونشیا سے ہے۔پترا ایئر ایشیا انڈونیشیا کے مطابق جہاز پر سوار 149 افراد کا تعلق انڈونیشیا سے، تین کا تعلق جنوبی کوریا سے، ایک برطانوی، ایک ملائیشیا اور ایک کا تعلق سنگا پور سے ہے۔جہاز کے عملے کے سات ارکان میں سے چھ ملائیشیا اور ایک کا تعلق فرانس سے ہے۔زیادہ تر مسافر سیاح ہیں جو تفریح کی غرض سے سنگاپور جا رہے تھے۔ایک مقامی ٹرانسپورٹ اہلکار نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ پرواز نمبر 8501 QZ کا رابطہ جکارتہ ایئر پورٹ سے مقامی وقت کے مطابق صبح سوا چھ بجے کے بعد سے منقطع ہے۔ٹرانسپورٹ اہلکار ہادی مصطفیٰ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ لاپتہ ہونے سے قبل طیارے نے مقررہ راستے سے ہٹ کر ایک اور راستے پر جانے کی اجازت طلب کی تھی، جب کہ کمپنی نے کہا ہے کہ جہاز نے خراب موسم کی وجہ سے اپنی پرواز کے راستے میں تبدیلی کی درخواست کی تھی۔انڈونیشیا کے وزارتِ ٹرانسپورٹ نے کہا کہ جہاز کے پائلٹ نے درخواست کی تھی جہاز کو 38 ہزار فٹ کی بلندی پر بادلوں کے اوپر پرواز کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم جہاز کے عملے نے کسی خرابی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔جہاز پر چھ غیرملکی بھی سوار ہیں، جن میں سے تین کا تعلق جنوبی کوریا سے اور ایک ایک کا فرانس، ملائیشیا اور سنگاپور سے ہے۔انڈونیشیا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے ترجمان نے کہا کہ جہاز کا رابطہ کالیمانتان اور جاوا کے درمیان منقطع ہوا۔جکارتہ میں بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ زیادہ تر مسافر سیاح تھے جو تفریح کی غرض سے سنگاپور جا رہے تھے۔
انڈونیشیا کی سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ بامبانگ سوئلیستیو نے کہا: ’ہمیں جو کوآرڈینیٹس دیے گئے ہیں، ان کے تجزیے سے یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ جہاز سمندر کی تہہ میں ہو گا۔’یہ ابتدائی اندازہ ہے، اور یہ تلاشی کی کارروائیوں کی دوران تبدیل ہو سکتا ہے۔‘کمپنی کے بیان کے مطابق جہاز پر 17 بچوں سمیت 155 مسافر سفر کر رہے تھے، اس کے علاوہ دو پائلٹ اور عملے کے پانچ دوسرے ارکان بھی جہاز پر سوار تھے۔اتوار کو انڈونیشیا کی فضائیہ اور سنگاپور کے جہازوں نے بحیر? جاوا میں طیارے کی تلاش کا عمل اندھیرا ہو جانے اور خراب موسم کے باعث روک دیا تھا۔ درجنوں کی تعداد میں بحری جہاز اور کشتیاں جہاز کی تلاش میں حصہ لے رہی ہیں۔ایئر ایشیا نے کہا ہے کہ صبح 7:24 پر اڑنے کے 45 منٹ بعد ایئر بس اے 200۔320 کا رابطہ ایئر ٹریفک کنٹرول سے منقطع ہو گیا تھا۔انڈونیشیا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے مطابق: ’ہمارا بنیادی ہدف طیارے کو تلاش کرنا ہے اور ہر ممکنہ محکمے اور متعلقہ ممالک سے رابطے میں ہیں۔ اس میں جہاز کا ڈیزائن تیار کرنے والے شعبے کے اہلکار، جہاز تیار کرنے والی فرانسیسی کمپنی کے اہلکار، ایئر ایشیا اور ملائیشیا کے آپریشنل اہلکار شامل ہیں۔‘بامبانگ سوئلیستیو کے مطابق انڈونیشیا کے 12 بحری جہاز، تین ہیلی کاپٹر اور پانچ فوجی ہوائی جہاز ریسکیو کارروائی میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملائیشیا نے ایک سی ون تھرٹی جہاز، تین بحری جہاز مہیا کیے ہیں جبکہ سنگاپور کا ایک سی وی تھرٹی جہاز بھی شامل ہے اور آسٹریلیا بھی جہاز کو تلاش کرنے میں مدد کر رہا ہے۔سنیچر کو یہ جہاز ملائیشیا کی کمپنی ایئر ایشیا کی ذیلی کمپنی ایئر ایشیا انڈونیشیا کی ملکیت ہے اور انڈونیشیا ہی میں رجسٹرڈ ہے جو مسافروں کو سستی پروازیں فراہم کرتی ہے۔ جہاز کی پرواز کا دورانیہ تین گھنٹے تھا لیکن یہ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد غائب ہو گیا۔اس سال ملائیشیا کی سرکاری ہوائی کمپنی ملائیشیا ایئرلائن کے دو طیارے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ البتہ اس سے پہلے ایئرایشیا کے کسی طیارے کو کوئی بڑا حادثہ پیش نہیں آیا۔مارچ میں ملائیشیا ایئرلائن کی پرواز ایم ایچ 370 جکارتہ سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئی تھی اور اس کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ اس طیارے پر 239 افراد سوار تھے۔ جب کہ پرواز ایم ایچ 17 جولائی میں یوکرین کے اوپر سے اڑتے وقت مار گرائی گئی تھی، جس سے اس پر سوار تمام 298 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ملائیشیا کی نجی ہوائی کمپنی ایئر ایشیا انڈونیشیا کے مطابق جہاز پر 162 افراد سوار ہیں جن کی اکثریت کا تعلق انڈونشیا سے ہے۔پترا ایئر ایشیا انڈونیشیا کے مطابق جہاز پر سوار 149 افراد کا تعلق انڈونیشیا سے، تین کا تعلق جنوبی کوریا سے، ایک برطانوی، ایک ملائیشیا اور ایک کا تعلق سنگا پور سے ہے۔جہاز کے عملے کے سات ارکان میں سے چھ ملائیشیا اور ایک کا تعلق فرانس سے ہے۔زیادہ تر مسافر سیاح ہیں جو تفریح کی غرض سے سنگاپور جا رہے تھے۔ایک مقامی ٹرانسپورٹ اہلکار نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ پرواز نمبر 8501 QZ کا رابطہ جکارتہ ایئر پورٹ سے مقامی وقت کے مطابق صبح سوا چھ بجے کے بعد سے منقطع ہے۔ٹرانسپورٹ اہلکار ہادی مصطفیٰ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ لاپتہ ہونے سے قبل طیارے نے مقررہ راستے سے ہٹ کر ایک اور راستے پر جانے کی اجازت طلب کی تھی، جب کہ کمپنی نے کہا ہے کہ جہاز نے خراب موسم کی وجہ سے اپنی پرواز کے راستے میں تبدیلی کی درخواست کی تھی۔انڈونیشیا کے وزارتِ ٹرانسپورٹ نے کہا کہ جہاز کے پائلٹ نے درخواست کی تھی جہاز کو 38 ہزار فٹ کی بلندی پر بادلوں کے اوپر پرواز کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم جہاز کے عملے نے کسی خرابی کی کوئی اطلاع نہیں دی۔جہاز پر چھ غیرملکی بھی سوار ہیں، جن میں سے تین کا تعلق جنوبی کوریا سے اور ایک ایک کا فرانس، ملائیشیا اور سنگاپور سے ہے۔انڈونیشیا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ کے ترجمان نے کہا کہ جہاز کا رابطہ کالیمانتان اور جاوا کے درمیان منقطع ہوا۔جکارتہ میں بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ زیادہ تر مسافر سیاح تھے جو تفریح کی غرض سے سنگاپور جا رہے تھے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں