بدھ‬‮ ، 18 جون‬‮ 2025 

پی پی پی،ایم کیو ایم اور کچھ اور جماعتیں تھیں فوجی عدالتوں سے ناراض، پھر اچانک کیسے مان گئیں؟ کلک کریں اوراندر کی خبر جانیے

datetime 26  دسمبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) اور عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) فوجی عدالتوں کے قیام پر تحفظات رکھتی تھیں لیکن جب آرمی نے یقین دہانی کرائی کہ مجوزہ اسپیشل ٹرائل کورٹ میں صرف بھیانک جرائم میں ملوث ’جیٹ بلیک دہشت گردوں‘ کی باز پرس کی جائے گی تو انہوں نے اس اقدام پر حمایت ظاہر کی۔

جنرل راحیل شریف نے کچھ سیاستدانوں کی جانب سے ظاہر کیے گئے تحفظات پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج کا اپنا قانونی نظام ہے جس کے کچھ چیک اینڈ بیلنس ہیں جو افسران کو اختیارات کے غلط استعمال سے باز رکھتے ہیں۔

’مجوزہ فوجی عدالتیں صرف وفاقی حکومت سے منظور شدہ مقدمات کی سماعت کریں گی‘۔

آرمی چیف کے پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ جمعرات کو ہونے والے طویل اجلاس میں شریک ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے پر ڈان کو بتایا کہ اجلاس کے ابتدائی مراحل میں ایم کیو ایم نے فوجی عدالتوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ پی پی پی اور اے این پی نے بھی اس کی مخالفت کی۔

سینیٹر اعتزاز احسن نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی عدالتوں کی جمہوری نظام میں کوئی جگہ نہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی ہے کیونکہ آئین میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

تاہم اس موقع پر مسلم لیگ ق کے رہنما مشاہد حسین نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے نکتہ اعتراض پیش کیا اور کہا کہ دسمبر 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا کیونکہ وہ وقت کی ضرورت تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں غیر روایتی حالات کا سامنا ہے کجس کے لیے غیر روایتی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

انہوں نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کس طرح 90 کی دہائی میں انسداد دہشتگردی عدالتیں بنائی گئیں اور کس طرح حال ہی میں بنایا گیا تحفظ پاکستان آرڈیننس بےسود رہا۔

سینیٹر مشاہد نے حسین نے کہا کہ لہٰذا ہمیں کچھ بالکل مختلف حل تلاش کرنا ہو گا اور ایک بار پھر ارکان کو یاد دہانی کرائی کہ 9/11 کے بعد امریکا نے بھی اسی طرح کے اقدامات کا سہارا لیا تھا۔

تاہم حیران کن طور پر سینیٹر رحمان ملک فوجی عدالتوں کے حق میں انتہائی زور وشور سے بولتے دکھائی دیے اور حکومتیذرائع کے مطابق آصف علی زرداری کو اس اقدام کے لیے منانے میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا جبکہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ بھی فوجی عدالتیں قائم کرنے کے حق میں تھے۔

اس دوران حاصل بزنجو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام کسی فوجی آمر کے بجائے جمہوری طریقے سے منتخب شدہ حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے کیا جا رہا ہے لہٰذا ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ یہ مجوزہ قوانین اور ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کام کرے گی۔

آفتاب شیرپاؤ نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی۔

شرکا کے مطابق اجلاس میں موجود پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما نے کچھ دیر انتظار کیا اور ماحول کا جائزہ لیتے رہے۔ جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ شرکا کی اکثریت اس فیصلے کے حق میں ہے تو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی مجوزہ منصوبے کی حمایت کردی۔ تاہم عمران خان نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ وہ فوری طور پر ملک بھر میں موجود تمام مسلح گروپوں کو پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہو کر ان پر پابندی عائ کرے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے ان کی تجویز فوری طور پر قبول کر لی۔

پارلیمانی جماعتوں کے سربراہوں کے دس گھنٹے تک جاری رہنے والے طویل اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں دلائل پیش کیے گئے کہ اگر ہم فوجی افسران کی زیر قیادت فوجی عدالتیں قائم نہیں کریں گے ماورائے عدالت قتل کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔

اس کے بعد دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دے دی گئی۔

لیکن اجلاس کے دوران ایم کیو ایم وہ واحد جماعت تھی جو مسلسل فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرتی رہی۔

متحدہ قومی موومنٹ کا موقف تھا کہ کیونکہ ماضی میں انہیں فیصلے کی وجہ سے کافی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں لہٰذا وہ اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔

تاہم وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف کی مدد سے ایم کیو ایم کے خدشات دور کرنے کی متعدد کوششیں کی۔

اس سلسلے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو فیصلے پر رضامند کرنے کے لیے ایک سے زائد ٹیلیفون کال کی گئیں، سینیٹر اسحاق ڈار نے الطاف کو یقین دہانی کرائی کہ فوجی عدالتوں کے غلط استعمال نہ ہونے کے حوالے سے وہ جو گارنٹی چاہیں گے حکومت ان کو فراہم کرے گی۔

عوامی نیشنل پارٹی بھی فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرنے والی جماعتوں میں شامل تھی لیکن جب وزیر اعظم نواز شریف نے افسردہ لہجے میں غلام احمد بلور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم اس مرتبہ بھی ناکام ہو گئے تو آپکے اور میرے بچے ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے، دہشت گردوں کے ہاتھوں اے این پی کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے لہٰذا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے‘، جس کے بعد اے این پی نے اس کی حمایت میں ایک لمحہ بھی نہ لگایا۔

غلام احمد بلور اپنی جماعت کے سینیٹر افرسیاب خٹک کے ہمراہ کمرے سے نکل گئے اور اپنی جماعت کے سربراہ اسفند یار ولی سے فوراً مشاورت کی جو اجلاس میں موجود نہ تھے۔

آفیشل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے جمعہ کو اجلاس کی صدارت کی جس میں انسداد دہشت گردی کے لیے 20 نکاتی قرارداد پر عملدرآمد کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



دیوار چین سے


میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…