اسلام آباد: جہاں سول سوسائٹی کے اراکین لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف مہم چلارہے ہیں، وہیں ایک ضعیف اور پریشان حال باپ بھی ذاتی وجوہ کی بنا پر اس مہم کا حصہ ہے۔
عبدالقیوم نامی ایک شخص نے، آبپارہ پولیس اسٹیشن کے باہر مولانا عبدالعزیز کے خلاف انسدادِ دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمہ کے اندراج کے لیے جمع مظاہرین کو یہ بتا کر حیران کردیا کہ وہ مولانا عبدالعزیز کی بیوی ام حسن کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔
یہ بات بہت عجیب لگی کہ جہاں سول سوسائٹی کے اراکین لال مسجد کو مولانا عبدالعزیز سے ‘بازیاب’ کرنے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، وہیں عبد القیوم، ام حسن کی زیرِ نگرانی چلائے جانے والے بچیوں کے مدرسے جامعہ حفصہ سے اپنی بیٹی کو ‘بازیاب’ کرانا چاہتا ہے۔
راولپنڈی کے مسلم ٹاؤن کا رہائشی عبدالقیوم، جو خلیجی ریاست شارجہ کی طرف سے پروفیشنل کرکٹر رہ چکا ہے، نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیٹی عظمیٰ نے سات ماہ قبل گھر چھوڑا تھا اور اسے جامعہ حفصہ میں رکھا گیا ہے۔
عبدالقیوم کے مطابق ان کی 26 سالہ بیٹی نے مذہبی تعلیم کا چار سالہ کورس کیا اور اپنی گریجویشن کے بعد ایک رات اچانک گھر چھوڑ دیا۔
جس کے بعد ام حسن کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انھیں اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی کو جامعہ حفصہ میں رہائش فراہم کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اپنی بیٹی کو واپس لانے کی میری تمام کوششیں بے سود ہو گئی ہیں’۔
‘میں نے مذہبی رہنماؤں کو خطوط بھی لکھے اور جامعہ حفصہ کے خلاف آبپارہ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروانے کی بھی کوشش کی لیکن پولیس نے میرا مقدمہ درج نہیں کیا حتیٰ کہ لال مسجد کے ایک گارڈ نے آبپارہ پولیس اسٹیشن کے سامنے مجھ پر تشدد بھی کیا’۔
عبدالقیوم کے مطابق ام حسن کی جانب سے اس بات کی بھی دھمکی دی گئی کہ ‘میں معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا’۔
انھوں نے ڈان کو بتایا کہ میری بیٹی گھر واپس آنا چاہتی ہے، لیکن ام حسن مجھے اپنی بیٹی سے اکیلے میں ملنے تک نہیں دیتیں۔ ‘مجھے لگتا ہے کہ انھوں نے میری بیٹی کی برین واشنگ کردی ہے’۔
عبد القیوم کے ہمراہ موجود ایک باریش شخص محمد عمران نے کہانی کو نیا رخ دیتے ہوئے کہا کہ ‘اُس کی تین سال قبل عظمیٰ سے منگنی ہوئی تھی، جس کے بعد وہ سعودی عرب چلا گیا’۔
‘جب میں واپس آیا تو تو مجھے علم ہوا عظمیٰ جامعہ حفصہ چلی گئی ہے اور گھر واپس نہیں آنا چاہتی، میں نے اس سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن مجھے ناکامی ہوئی’۔
عبد القیوم کے مطابق اُس نے ام حسن سے عظمی اور عمران کے نکاح کی درخواست کی تاہم انھوں نے جواب دیا کہ استخارہ کے مطابق یہ رشتہ دونوں کے لیے بہتر نہیں ہے۔
دوسری جانب ام حسن نے ڈان سے بات کرتے ہوئےا ن تمام الزامات کی تردید کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عظمیٰ جامعہ حفصہ آئی اور اس نے کہا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی جو اسے ‘پریشان’ کرتا ہے۔
‘جیسا کہ ہم پہلے ہی بہت ساری مشکلات برداشت کر رہے ہیں، میں اس نئی ذمہ داری کے لیے تیار نہیں تھی۔ میں نے اسے گھر واپس بھیجنے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم اس نے انکار کردیا۔ میں نے اسے عمران سے نکاح کرکے اس کے ساتھ جانے کو بھی کہا لیکن عظمیٰ نے یہ کہہ کہ منع کردیا کہ استخارہ اس رشتے کے خلاف جا رہا ہے’۔
ام حسن کے مطابق ‘میں ابھی بھی عظمیٰ کو جامعہ حفصہ میں نہیں رکھنا چاہتی۔ مجھے علم ہے کہ اس کا خاندان مجھ پر الزمات عائد کرے گا، لہذا میں نے اسے مجسٹریٹ کے پاس بھیجنےکا فیصلہ کیا، جہاں سے پہلے اسے دارالامان بھیجا گیا اور چار دن بعد عظمیٰ کے اس بیان کے بعد کہ ‘وہ جامعہ حفصہ میں رہنا چاہتی ہے’، اسے یہاں بھیج دیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘عظمی 26 سال کی ہے اور پاکستان اور اسلام کے قوانین کی رو سے اپنے فیصلے میں خود مختار ہے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب والدین اپنے بچوں کو اپنی پسند کے مطابق شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں، لیکن یہاں مسئلہ اس وجہ سے پیدا ہوا کہ وہ لڑکی جامعہ حفصہ میں ہے’۔
آبپارہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او خالد اعوان نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ قانون لڑکی کے ساتھ ہے اور مجسٹریٹ کامران چیمہ کے سامنے سیکشن 164 کے تحت ریکارڈ اُس کے بیان کے مطابق وہ اپنے والدین کے ہمراہ نہیں رہنا چاہتی۔
ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ‘قانون کے مطابق ہم یہ مقدمہ درج نہیں کرسکتے، کیونکہ پاکستان کا ہر بالغ فرد کہیں بھی اور کسی کے بھی ساتھ رہنے میں آزاد ہے’۔