جمعرات‬‮ ، 19 جون‬‮ 2025 

پاکستانی بزنس ڈگریز میں کیا کمی ہے؟ پڑھنے کیلئے کلک کریں

datetime 21  دسمبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پاکستانی یونیورسٹیوں سے بی بی اے اور ایم بی اے کی ڈگریاں حاصل کرنے والے طلبا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں شاید ہی کسی کو حقیقی دنیا کا تجربہ ہو، جبکہ بزنس میں حقیقی دنیا ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

کورس کی کتابیں رٹنا صرف تب مددگار ہوسکتا ہے، جب آپ انجینیئرنگ، میڈیکل، یا قانون کے طالب علم ہوں۔ بزنس کے طلبا مکمل طور پر ٹیکسٹ بکس پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ انہیں نہ صرف اپنی فیلڈ، بلکہ تمام دوسری فیلڈز کے بارے میں بھی تازہ ترین معلومات ہونی چاہییں، جس کا مطلب ہے کہ میگزین، جرنل، اور دیگر اشاعتیں پڑھنا بھی اہم ہے۔

کئی کارپوریشنز شکایت کرتی ہیں کہ پاکستانی یونیورسٹیاں اچھی کوالٹی کے بزنس گریجویٹس پیدا نہیں کررہیں، اور ان کی شکایات درست بھی ہیں۔

کیس اسٹڈیز کافی نہیں ہیں

بزنس کوئی ایسی چیز نہیں جو کلاس روم میں سیکھی جاسکے۔ بنیادی طور پر یہ فیلڈ میں کام کے تجربے سے سیکھا جاتا ہے۔ اور تب ہی کیس اسٹڈی کا طریقہ کار پاکستان میں بزنس کی تعلیم کو تبدیل کرنے کے حوالے سے کارآمد نہیں ہوگا۔

ماہرین اور تجزیہ کار طویل عرصے سے اس بات پر بحث کرتے آئے ہیں، کہ یونیورسٹیوں کے انڈسٹری کے ساتھ روابط ہونے چاہیئں، لیکن وہ یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ ان کارپوریشنز کو اپنی انٹرن شپس صرف گریجویٹس کے لیے نہیں بلکہ بیچلر سطح پر پہلے، دوسرے، اور تیسرے سال کے طلبا کے لیے بھی کھولنی چاہیئں۔

طلبا کو بالکل شروع سے ہی کام پر لگا دینا چاہیے، تاکہ وہ جب تک گریجویٹ ہوں، تب تک انہیں کام کا خاطر خواہ تجربہ حاصل ہوجائے، اور کارپوریشنز سے واقفیت ہوجائے۔

پروگرامز میں ٹیکنولاجی زیادہ شامل ہونی چاہیے

ٹیکنولاجی اور بزنس کے بڑھتے ہوئے تعلق کی وجہ سے طلبا کو انڈسٹری میں استعمال ہونے والے بہترین سافٹ ویئرز کے استعمال کی ٹریننگ دینی چاہیے۔ زیادہ تر یونیورسٹیوں میں اوریکل، سیپ، ایکسل، مائیکروسافٹ پراجیکٹ، ریٹیل پرو، مائی ایس کیو ایل، گوگل ایڈ ورڈز، اور فوٹوشاپ سکھایا جاتا ہے۔ لیکن بسا اوقات یہ صرف بنیادی سطح کی ٹریننگ ہوتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ اب ‘کیا کرنا چاہیے’ بتانے کے بجائے یہ بتانا چاہیے کہ کوئی کام کیا کیسے جاتا ہے۔

نئے دور میں نیٹ ورکنگ

اس کے علاوہ، یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی بھی بزنس گریجویٹ کے لیے سب سے اہم اثاثہ اس کا نیٹ ورک ہوتا ہے۔ بزنس گریجویٹس کی ایک بہت ہی کم تعداد یہ مانتی ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، اور لنکڈ اِن فائدہ مند چیزیں ہیں۔

حالیہ کچھ سالوں میں لنکڈ ان کے ذریعے بھرتیوں کی تعداد میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یونیورسٹیوں کو اپنے طلبا کو نہ صرف یہ سکھانا چاہیے کہ اپنی سی وی کس طرح بہتر بنائی جاسکتی ہے، بلکہ انہیں لنکڈ ان پر پروفیشنل پروفائلز بنانا بھی سکھانی چاہیئں۔

وہ دن اب جاچکے ہیں جب کارپوریشنز کے ایچ آر مینیجر مائیکروسافٹ ورڈ میں لکھی گئی ہزاروں سی ویز میں سے انتخاب کیا کرتے تھے۔ آج کل کارپوریشنز میں ریکروٹمنٹ اسپیشلسٹس کو بھرتی کیا جارہا ہے، جو لنکڈ ان کے ذریعے صحیح افراد کو جلد سے جلد اور زیادہ موثر طور پر ڈھونڈ لیتے ہیں۔

بولنے کی قابلیت پالش کرنا

اگر تجزیہ کار صحیح کہتے ہیں، اور باقی شعبوں کے گریجویٹس اور بزنس گریجویٹس میں فرق ان کے بہتر کمیونکیشن کا ہے، تو بزنس کی تعلیم کو آپ کو بہتر پبلک اسپیکر بنانا چاہیے۔

پریزنٹیشن دینا پبلک اسپیکنگ کا صرف ایک حصہ ہے۔ سمپوزیمز میں تقریر کرنا ایک بالکل دوسری بات ہے۔

ہر یونیورسٹی میں TEDx کی طرز پر ایونٹ ہونے چاہیئں، جہاں طلبا کو اپنے نئے آئیڈیاز کا اظہار کرنے کے لیے 4 سے 5 منٹ دیے جائیں۔ ایسے ایونٹس سال میں دو بار ہونے چاہیئں، اور تمام یونیورسٹیوں کو اپنے طلبا کے درمیان مقابلہ کرانے کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔

مقامی کیس اسٹڈیز زیادہ اور وارن بوفے کی کم ہونے چاہیئں

مجھے یہ تاثر درست کرنے دیں، کہ پاکستانی یونیورسٹیز میں امریکی کیس اسٹڈیز پڑھانے سے مدد ملتی ہے۔ یہ غلط تاثر ہے۔

پاکستانی طلبا ہینری فورڈ اور وارن بوفے سے زیادہ مقامی بزنس لیڈرز سے سیکھ سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ یہ لوگ ایک مختلف جگہ سے تعلق رکھتے تھے، مختلف قوانین، مختلف ذہنی سطحوں، اور مختلف کاروباری ماحول میں تھے، بلکہ ان کے پاس وہ وسائل اور سہولیات موجود تھیں، جن کا ایک عام پاکستانی تصور بھی نہیں کرسکتا۔

طلبا کو داؤد ہرکولیس کارپوریشن کے چیئرمین حسین داؤد، اینگرو کارپوریشن کے سابق صدر اسد عمر، اخوت کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب، اور نیٹسول ٹیکنولاجیز کے چیئرمین اور سی ای او سلیم غوری کی زندگیوں سے سبق کیوں نہیں پڑھائے جاتے؟

ہم اپنے طلبا کو مقامی لوگوں کی کامیابیوں کے بارے میں پڑھانے سے کیوں گریزاں ہیں؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکیوں کی نقالی نہ کی گئی، تو ہم ان کی طرح بہتر نہیں ہوسکیں گے؟

بزنس اسٹارٹ اپ ضروری ہیں

اگر مجموعی طور پر بات کی جائے، تو ہم اپنے بزنس طلبا کو ملازمتیں پیدا کرنے والا بنانے کے بجائے ملازمت ڈھونڈنے والا بنا رہے ہیں۔

ہر بزنس اسکول کو ایک انکیوبیٹر کی طرح ہونا چاہیے، جہاں طلبا گروپس کی صورت میں اپنے بزنس آئیڈیاز تیار کریں، اور ان آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی یونیورسٹیز سے منسلک انویسٹرز سے انویسٹمنٹ حاصل کریں۔

لمس سینٹر فار اینٹرپرینورشپ صحیح سمت میں ایک قدم ہے، لیکن اس ماڈل کو پاکستان کے تمام پبلک اور پرائیویٹ بزنس اسکولز میں نافذ ہونا چاہیے اگر بزنس ایجوکیشن کو ترقی دلانا چاہتے ہیں تو۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوژن


وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…