جمعرات‬‮ ، 19 جون‬‮ 2025 

کوئی بھی پاکستانی امریکہ کو قابلِ اعتبار اتحادی تسلیم نہیں کرتا،پرویز مشرف

datetime 18  دسمبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی۔۔۔۔پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ اور ملک کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی امریکہ کو قابلِ اعتبار اتحادی تسلیم نہیں کرتا۔بدھ کی شب بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے اپنے طریقے سے نمٹ رہا ہے اور جب تک دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ساتھ لڑنی ہے، تب تک اس کی حکمتِ عملی کو پاکستان پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔پاکستان میں دو روز قبل پشاور میں طالبان کے حملے میں 132 بچوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی شدت پسندوں سے لڑنے کی صلاحیت کا معاملہ ایک مرتبہ پھر زیرِ بحث آیا ہے۔اس حملے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچانے اور اچھے یا برے طالبان کی تمیز نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔جنرل مشرف نے کہا کہ ’میں کہوں گا کہ اتنے برسوں میں جو میں نے دیکھا ہے کہ پاکستان کو ایک قابلِ اعتبار اتحادی نہیں سمجھا جاتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ہم امریکہ کو بہت قابلِ اعتماد نہیں سمجھتے۔ یہ ہر پاکستانی کی رائے ہے۔‘ان مسائل سے پاکستان اور افغانستان دونوں پر اثر پڑتا ہے۔ اِس لیے، حالات پر قابو پانے میں فرق آ جاتا ہے۔ جب مسائل سے نمٹنے کا وقت آتا ہے تو اختلافات سامنے آنے لگتے ہیں جب آپ لوگ، یعنی مغربی طاقتیں، چھوٹے چھوٹے معاملات اور طریق کار میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مغرب کے پاس’افغانستان کے مسئلے سے نمٹنے کا اپنا طریقہ ہے اور ہمارے پاس مسائل سے نمٹنے کا اپنا طریقہ ہے چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں۔‘
سابق صدر نے کہا کہ ’ان مسائل سے پاکستان اور افغانستان دونوں پر اثر پڑتا ہے۔ اِس لیے، حالات پر قابو پانے میں فرق آ جاتا ہے۔ جب مسائل سے نمٹنے کا وقت آتا ہے تو اختلافات سامنے آنے لگتے ہیں جب آپ لوگ، یعنی مغربی طاقتیں، چھوٹے چھوٹے معاملات اور طریق? کار میں مداخلت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے مغربی ممالک پاکستان کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے اس لیے ’میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے سٹریٹجک سطح پر ساتھ ہیں۔ طریق? کار ہمیں ہی طے کرنے دیں۔‘پرویز مشرف نے کہا کہ ہر ملک کے مسائل اور اندرونی صورتحال مختلف ہوتی ہے اور شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسے مدِنظر رکھنا پڑتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال میں مغرب میں وہ جو اس صورتحال سے براہ راست متعلق یا پوری طرح باخبر نہیں، سمجھتے ہیں کہ سب ڈبل گیم کھیل رہے ہیں لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے۔‘’ہم تو صورتحال سے دستیاب وسائل کی مدد سے ہر ممکن طریقے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوژن


وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…