پشاور۔۔۔۔منگل کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں طالبان کے قتلِ عام کا نشانہ بننے والے بچوں اور دوسرے افراد کی تدفین کا عمل شروع ہو گیا ہے، جب کہ ملک میں تین روزہ سوگ منایا جا رہا ہے۔
اس سے قبل منگل کو رات گئے پاکستانی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس حملے میں 132 بچوں سمیت کل 141 ہلاکتیں ہوئی ہیں، اور ہلاک ہونے والوں میں سات خودکش حملہ آور بھی شامل تھے جو سبھی مارے گئے۔فوج نے منگل کی رات یہ بھی کہا تھا کہ سکول کو دہشت پسندوں سے کلئیر کروا لیا گیا ہے، تاہم پشاور میں بی بی سی کے نمائندے شہزاد ملک نے کہا ہے کہ اب سے تھوڑی دیر قبل سکول کے اندر ایک اور دھماکہ ہوا ہے۔ ہمارے نمائندے کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ سکول کو ابھی تک کلیئر نہیں کروایا جا سکا اور وہاں اب بھی بارودی مواد موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سکول کے اندر اب بھی سکیورٹی فورسز کے اہلکار موجود ہیں اور وہاں بارودی مواد کی تلاش تاحال جاری ہے۔ہلاک ہونے والوں میں سے بہت سے افراد کے جنازے منگل کی شام کو پڑھائے گئے جس کے بعد اْن کی تدفین کی گئی۔ نامہ نگاروں کے مطابق اس موقعے پر رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے۔’دہشت گرد سکول میں پیچھے سے داخل ہوئے، سیڑھی کے ساتھ، اور سیدھے آڈیٹوریم میں آئے، آڈیٹوریم میں بچوں کا اجتماع تھا، اور کوئی امتحان اور لیکچر تھا، جب انھوں نے فائرنگ کی تو بچے یہاں سے بھاگے، باہر نکلنے کے دو دروازے تھے، انھوں نے بچوں کو اجتماع میں مارا، بعد میں جب ہمارے لوگ ریسکیو کرنے گئے تو انھوں نے بتایا کہ بچے خون میں بھیگے گراؤنڈ میں ایک دوسرے کے اوپر پڑے ہوئے تھے۔‘ہلاک ہونے والے ایک بچے کے والد نے اے پی پی کو بتایا کہ ’وہ صرف 15 سال کا تھا اور آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ کل رات میں نے اس سے بات کی تھی۔ آج صبح وہ مجھ سے پہلے اٹھا اور اسکول چلا گیا۔‘ایک اور بچے دس سالہ گل شیر کے چچا ساجد خان نے کہا کہ ان کا بھتیجا ڈاکٹر بننا چاہتا تھا لیکن اب وہ کفن میں لپٹا ہوا ہے: ’ہم لوگ ان دہشت گردوں سے بدلہ نہیں لے سکتے لیکن میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان سے بدلہ لے۔‘دنیا بھر میں اس حملے کی مذمت ہو رہی ہے، یہاں تک کہ تحریک طالبان پاکستان کے نظریاتی ساتھی افغانستان کے طالبان نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دیا ہے۔افغانستان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ویب سائٹ پر جاری شدہ بیان میں کہا ہے کہ وہ لوگ پشاور حملے میں مارے جانے والے بچوں کے رشتہ داروں کو ہمدردی کا پیغام بھیج رہے ہیں۔کئی زخمی ابھی بھی ہسپتالوں میں موجود ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔منگل کی رات ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم باجوہ نے سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچے اور سکول کے سٹاف کے نو ارکان ہلاک ہوئے جبکہ 121 افراد زخمی ہوئے ہیں جو لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور سی ایم ایچ پشاور میں زیر علاج ہیں۔فوج کے ترجمان کے مطابق سکول میں سٹاف سمیت تقریباً 1100 بچے رجسٹرڈ تھے جن میں سے 960 کو بچا لیا گیا ہے اور آپریشن مکمل ہو گیا ہے۔آرمی پبلک سکول پشاور کا نقشہ دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ سکول کے کل چار بلاک ہیں جن میں ایک آڈیٹوریم، ایک انتظامی بلاک، جبکہ دو تدریسی بلاک ہیں۔آپریشن کے دوران کئی فوجی اہلکار بھی زخمی ہوئے’دہشت گرد سکول میں پیچھے سے داخل ہوئے، سیڑھی کے ساتھ، اور سیدھے آڈیٹوریم میں آئے، آڈیٹوریم میں بچوں کا اجتماع تھا، اور کوئی امتحان اور لیکچر تھا، جب انھوں نے فائرنگ کی تو بچے یہاں سے بھاگے، باہر نکلنے کے دو دروازے تھے، انھوں نے بچوں کو اجتماع میں مارا، بعد میں جب ہمارے لوگ ریسکیو کرنے گئے تو انھوں نے بتایا کہ بچے خون میں بھیگے ہوئے میدان میں ایک دوسرے کے اوپر پڑے ہوئے تھے۔‘آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق حملہ آوروں کی کل تعداد سات تھی جو خودکش جیکٹوں اور ہھتیاروں سے لیس تھے اور انھوں نے سکول میں پچھلی جانب سے حملہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ 15 منٹ کے وقفے کے بعد کوئیک فورس پہنچ گئی تھی اور اس کے بعد ایس ایس جی کے کمانڈوز بھی وہاں پہنچ گئے۔
انھوں نے بتایا کہ ایس ایس جی کے آپریشن میں ایک دہشت گرد کو آڈیٹوریم کے خارجی راستے پر مارا گیا جبکہ باقی چھ دہشت گردوں کو سکول کے انتظامی بلاک میں ہلاک کیا گیا۔
قتلِ عام پر کراچی اور اسلام آباد میں لوگوں نے جمع ہو کر مرنے والوں کی یاد میں شمعیں روشن کیں
’تین لوگ (حملہ آور) ایس ایس جی نے روشندانوں سے ہلاک کیے اور تین کو انھوں نے عمارت کے اندر جا کر ہلاک کیا۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آرکے مطابق شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں ایس ایس جی کے سات اہلکار زخمی ہوئے جبکہ زخمی ہونے والے فوج کے دو افسران شدید زخمی ہیں۔
’آپریشن کے اختتام کے وقت انتظامی بلاک سے ایس ایس جی نے کل 23 بچوں کو بازیاب کروایا۔ بہت سے بچے روشندانوں میں چڑھ کرچھپے ہوئے تھے، باتھ روموں میں تھے، فرنیچر کے نیچے چھپے ہوئے تھے۔‘
فوج کے ترجمان نے پریس بریفنگ کے اختتام پر کہا کہ دہشت گرد اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کا پیچھا کیا جائے گا چاہے وہ ملک میں کہیں بھی ہوں۔