ہفتہ‬‮ ، 13 ستمبر‬‮ 2025 

سڈنی کے کیفے میں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا

datetime 15  دسمبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سڈنی۔۔۔۔آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں کم سے کم ایک مسلح شخص نے ایک کیفے میں موجود متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا ہے۔یہ واقعہ وسطی سڈنی کے مصروف کاروباری علاقے مارٹن پلیس میں پیر کی صبح پیش آیا ہے اور سارے علاقے کو سینکڑوں پولیس اہلکاروں نیگھیرے میں لے لیا ہے۔نیو ساؤتھ ویلز پولیس کی نائب کمشنر کیتھرین برن نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ پولیس واقعے کے پانچ گھنٹے بعد اب اغوا کار سے رابطے میں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کے مذاکرات کاروں نے رابطہ کیا ہے جو برقرار ہے اور ہم اسے مذاکرات کاروں کے ذریعے برقرار رکھیں گے۔‘انھوں نے کہا کہ وہ یرغمالیوں کی صحیح تعداد تو نہیں بتا سکتیں لیکن ’یہ تعداد 30 نہیں ہے جیسا کہ کہا جا رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے تفتیش کار مسلح شخص کے ارادوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کے خیال میں تاحال کیفے میں موجود کسی شخص کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔آسٹریلوی ٹیلی وڑن پر نشر کیے جانے والے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کم از کم تین افراد کھڑکیوں کے ساتھ ہاتھ فضا میں بلند کیے کھڑے ہیں اور وہاں ایک کالے رنگ کا پرچم بھی موجود ہے جس پر کلمہ تحریر ہے۔واقعے کے کئی گھنٹے بعد کیفے سے دو افراد باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو بظاہر عملے کے ارکان لگ رہے ہیں۔اس سے قبل تین دیگر افراد کو بھی لنٹ کیفے کی قریبی عمارت سے باہر نکلتے دیکھا گیا تھا۔پولیس واقعے کے پانچ گھنٹے بعد اب اغوا کار سے رابطے میں ہے۔پولیس کی نائب کمشنر نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اس علاقے سے تین افراد باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔سڈنی میں بی بی سی کے فل مرسر کے مطابق دو شیشے کے دروازوں سے باہر آئے جبکہ ایک شخص ہنگامی اخراج کے راستے سے نکلا۔نامہ نگار کے مطابق یہ واضح نہیں کہ یہ افراد یرغمالی تھے یا نہیں اور انھیں پولیس نے چھڑوایا ہے یا یہ خود بھاگ نکلے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ افراد کسی قریبی عمارت میں موجود تھے۔مارٹن پلیس کے سٹیشن کے علاوہ مذکورہ عمارت کے آس پاس واقع گلیاں بند کر دی گئی ہیں اور لوگوں کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا ہے۔نیو ساؤتھ ویلز کی پولیس نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس علاقے میں جانے سے گریز کریں اور آس پاس کے علاقے کے رہائشی کھڑکیوں کے قریب نہ جائیں۔سڈنی کے اس علاقے مارٹن پلیس کو سینکڑوں پولیس اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم ٹونی ایبٹ نے ملک کی قومی سلامتی کی کمیٹی سے ملاقات کی ہے اور ایک بیان میں اس صورتحال کو تشویش ناک قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ تاحال واضح نہیں کہ یہ کارروائی کرنے والے فرد کا مقصد کیا ہے لیکن تمام آسٹریلوی باشندوں کو اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ ملک کے قانون نافذ کرنے کے ادارے اور سکیورٹی ایجنسیاں تربیت یافتہ ہیں اور اس معاملے سے پیشہ وارانہ طور پر نمٹ رہی ہیں۔‘نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے سربراہ اینڈریو سائیپیون کا کہنا ہے فی الحال اس صورتحال کو دہشت گردی کی کارروائی کے طور نہیں دیکھا جا رہا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صورتحال صرف مارٹن پلیس کے علاقے میں ہی ہے اور شہر کے بعض دیگر علاقوں میں پیش آنے والے واقعات کی اطلاعات غلط ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ایک شخص جو ایک بیگ اور بندوق سے مسلح تھا، لنٹ چاکلیٹ کی دکان اور کیفے میں داخل ہوا۔اس کے کچھ ہی دیر بعد کم از کم دو افراد جو بظاہر کیفے کے ملازمین لگ رہے تھے ایک کھڑکی کے پاس سیاہ جھنڈے کے ہمراہ دکھائی دیے۔آسٹریلیا کی مشہور عمارت سڈنی کے اوپرا ہاؤس کو بھی خالی کروا لیا گیا ہے۔سکیورٹی امور کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ یہ پرچم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے پرچم سے مماثلت رکھتا ہے لیکن بالکل ویسا نہیں جیسا کہ تنظیم استعمال کرتی ہے۔آسٹریلیا کے سرکاری خبر رساں ادارے نے جائے وقوعہ سے گولی چلنے کی آواز سنائی دینے کی خبر بھی دی ہے تاہم ابھی اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ تاحال اس واقعے میں کسی بھی فرد کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔سڈنی میں ہی انسدادِ دہشت گردی کی پولیس نے مشہور عمارت اوپرا ہاؤس کو بھی خالی کروا لیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ وہاں بھی ’ایک واقعہ‘ پیش آیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اوپرا ہاؤس سے ایک مشکوک پیکٹ برآمد ہوا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ واقعہ مارٹن پلیس والے واقعے سے منسلک ہے یا نہیں۔آسٹریلیا میں گذشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے تانے بانے عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ سے ملتے ہیں۔مذکورہ عمارت کے آس پاس واقع گلیاں بند کر دی گئی ہیں اور لوگوں کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 70 آسٹریلوی شہری اس وقت تنظیم کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں برسرپیکار ہیں جبکہ 20 کے قریب لڑائی میں حصہ لینے کے بعد واپس آ چکے ہیں۔ستمبر میں سڈنی اور برزبین میں آسٹریلوی تاریخ کی انسدادِ دہشت گردی کی سب سے بڑی کارروائی ان اطلاعات پر کی گئی تھی کہ کچھ لوگ آسٹریلوی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔اس معاملے میں ایک شخص پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔اس کے بعد اکتوبر میں ملک میں انسدادِ دہشت گردی کا قانون منظور کیا گیا ہے جس پر انتہائی سخت ہونے کے حوالے سے تنقید بھی کی گئی ہے۔پیر کی صبح بھی آسٹریلیا کی ایک عدالت نے دو افراد پر دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہونے کی فردِ جرم عائد کی ہے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر


حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…