نیو یارک۔۔۔۔سیارہ مریخ پر موجود امریکی خلائی ادارے ناسا کی روبوٹک گاڑی پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اب وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ مریخ کیگیل نامی گڑھے میں کریوسٹی نامی گاڑی کے اترنے کے مقام پر ایک بہت بڑا پہاڑ کیوں موجود ہے۔ان کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑ یہاں پر ماضی میں موجود جھیلوں میں پانی کے مسلسل بہاؤ کے نتیجے میں جمع ہو نے والی کیچڑ اور گاد کا نتیجہ ہے اور اس کی تشکیل میں غالباً دسیوں لاکھ سال لگے ہوں گے۔اور آج ہم مریخ پر جس پانچ کلومیٹر اونچی چوٹی کو دیکھتے ہیں وہ ماضی میں چلنے والی تیز ہواؤں کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔اگر یہ سچ ہے تو اس سے ماضی میں سرخ سیارے کے موسم کے بارے میں کافی کچھ پتاچل سکتا ہے۔بہت سے لوگوں کی سوچ کے برعکس یہ دنیا اپنے پہلے دو ارب سالوں میں گرم اور تر رہی ہوگی۔کریوسٹی کے انکشافات ایک سال کے ارضیاتی مشاہدے نتیجہ ہیں۔کریوسٹی روورکی ٹیم کا کہنا ہے کہ یقیناً قدیم مریخ میں بارشوں اور برفباری سمیت شدید نوعیت کی موسمی تبدیلیاں ہوتی رہی ہونگی اور ماضی میں سیارے پر ایک سمندر کے موجود ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔کریوسٹی پروجیکٹ کے ایک سائنسدان ڈاکٹر اشون واساوادہ کا کہنا ہے کہ لاکھوں سال تک ایک جھیل کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے پانی کے بڑا ذخیرے، جیسے سمندر، کا سیارے پر موجود ہونا ضروری ہے۔کئی دہائیوں سے محققین مریخ کی ابتدائی تاریخ میں سیارے پر ایک بڑے سمندر کے ہونے کا شبہ ظاہر کر رہے ہیں اور کریوسٹی کے حالیہ نتائج یقناً اس بحث کو دوبارہ بھڑکانے کا سبب بنیں گے۔گیل جیسے گڑھوں کے درمیان میں اکثر ابھار ہوتے ہیں مگر اتنے بڑے نہیں جتنا یہ پہاڑ ہے۔پہاڑ کا معمہ روبوٹ کے زمین پر موجود ہونے س ہی حل ہو سکتا تھا
کریوسٹی کے انکشافات ایک سال کے ارضیاتی مشاہدے کا نتیجہ ہیں، جو اس نے اپنی لینڈنگ سائٹ سے جنوب کی جانب سفر کے دوران کیا۔ جس کے دوران اس نے بڑی مقدار میں کیچڑ دیکھی جو یقینی طو پر قدیم دریاؤں کے بہاؤ کی وجہ سے جمع ہوئی ہے۔کریوسٹی جنوب کی جانب جتنی گئی تو واضح ہو تا گیا کہ یہ آبی سرگرمی گڑھوں کے درمیان جامد جھیلوں تک جاتی ہے۔لیکن حتمی طور پر یہ بات اس وقت ثابت ہوئی جب روور نے ایک اونچے مقام سے اس گاد کو پہاڑ کے دامن کی جانب غوطہ کھاتے ہوئے دیکھا۔
مشن کے سائنسدان اور امپیریل کالج لندن کے پروفیسر سنجیو گپتا کا کہنا ہے کہ ہم ہمیشہ یہ منظم نمونہ دیکھتے ہیں۔بہت سے سوال اب بھی موجود ہیں، جیسا کہ مریخ پر پا نی کتنے عرصے تک موجود تھا ہو سکتا ہے کہ پہاڑ بننے کا عمل ایک تھوڑے عرصے میں ہوا ہو اور یہ تصور کہ ماضی میں مریخ زیادہ گرم تھا اس وقت کے موجود موسمی ماڈلز سے بر عکس ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ پانی گڑھے کی ڈھلان کی طرف جا رہا تھا جہاں یہ جمع ہوتا تھا اور لاکھوں سال تک تہہ در تہہ گاد جمع ہو نے سے یہ پہاڑ بن گیا ہے۔کریوسٹی پروجیکٹ کے سائنسدان پروفیسر جان گروٹزنگر نے روور کے کام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس پہاڑ کا معمہ روبوٹ کے سطح پر موجود ہونے سے ہی حل ہو سکتا تھا، مصنوعی سیارے سے مشاہدے کے ذریعے اس کو سمجھا نہیں جا سکتا تھا۔بہت سے سوال اب بھی موجود ہیں، جیسا کہ مریخ پر پانی کتنے عرصے تک موجود تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پہاڑ بننے کا عمل ایک تھوڑے عرصے میں ہوا ہو اور یہ تصور کہ ماضی میں مریخ زیادہ گرم تھا اس وقت کے موجود موسمی ماڈلز سے بر عکس ہے۔ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسوں کی موجودی گی کے باوجود موسمی ماڈلز میں درجہ حرارت کو بڑھانا مشکل ہے۔ڈاکٹر وسادہ کا کہنا ہے کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسوں کی موجودگی کے باوجود موسمی ماڈلز میں درجہ حرارت کو بڑھانا مشکل ہے مگر اگر ایسا نہ کیا جائے تو پانی فوراً جم جائیگا۔ٹیم امید کر رہی ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں کریوسٹی کے مزید مشاہدات کی روشنی میں ان میں سے کچھ سوالات کے جواب مل سکیں گے۔
سائنسدانوں نے مریخ پر پہاڑ کی موجودگی کا راز پا لیا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں