اس نمائش میں کئی ملکوں نے پاکستانی طیارے میں دلچسپی ظاہرکی ہے۔ ا?ئیڈیاز2014 کے تحت سینٹربرائے انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کے سیمینارسے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس ا ف اسٹاف کمیٹی جنرل راشدمحمود نے کہا کہ ا ئیڈیاز2014 نے ملک کو درپیش سیکیورٹی کے سنگین چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی دفاعی صنعت کی کامیابیوں اور اس کی ریسرچ اور ڈیولپمنٹ سہولتوں کی نشاندہی کردی ہے۔ ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن ا رگنائزیشن کے زیراہتمام سیمینارکا عنوان ’’ایک متحرک سلامتی کے ماحول کے چیلنجوں کی تحقیق اور پیداوار کا ملاپ‘‘ تھا۔ روسی فیڈریشن، ملائیشیااور پاکستان کے معروف اسکالروں نے سیمینارکے موضوع پر اپنا اظہار خیال کیا۔ جنرل راشدمحمود نے کہا کہ دنیا کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے جبکہ پرانے سیکیورٹی خدشات نئی ٹیکنالوجی اپنانے کے لیے تبدیل ہو رہے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ اسٹرٹیجک استحکام کی روایتی بنیادی تبدیلی کو دنیا کے معاملات میں نئی حقیقتوں اور تبدیل ہوتی ہوئی فوجی وسیاسی قوت کی عملداری نے ماضی میں دھکیل دیاہے۔ ریاستیں اب زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگی ہیں اور ابھرتے چیلنجوں کو کم کرنے کے لیے مجموعی یااشتراکی سیکیورٹی طریقہ جات کے لیے کوشاں ہیں۔ ڈاکٹرملیحہ لودھی نے اپنی پریذنٹیشن میں کہا کہ پاکستان کے لیے بڑاچیلنج عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو شکست دینے، معیشت کو بحال کرنے، توانائی کا بحران حل کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی ا بادی کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں پنہاں ہے۔ ایئرمارشل جاویداحمد نے اپنی تقریرمیں کہا کہ جوں جوں چیلنجوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ دفاعی صنعت کے مواقع میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان کی دفاعی صنعت نے سر پر لٹکتے ہوئے سیکیورٹی خطرات سے اچھی طرح نمٹا ہے۔
ڈاکٹر ولیم اسٹیون سن نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور فوجی معاملات میں انقلابی تبدیلیوں نے سیکیورٹی کو ارضی سرحدوں اور سائبرخلا سے باہرجنگ کی ایک نئی سرحد میں تبدیل کردیا ہے۔ روسی انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹرٹیجک اسٹڈیزکے ولادیمر کوزن نے واضح کیا کہ بیرونی خلا مستقبل میں ریاستوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ کا ایک اکھاڑہ بن سکتا ہے۔ روسی فیڈریشن اب بھی بیرونی خلا کو پوری عالمی کمیونٹی کا ورثہ تصور کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
قبل ازیں DEPO کے ڈائریکٹرجنرل میجرجنرل ا غا مسعوداکرم نے کہاکہ حالانکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ترقی یافتہ ممالک کے درمیان کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی گئی۔ اس کے باوجود ان کی دفاعی صنعتیں مسلسل فوجی ا لات تیار کر رہی ہیں۔ ان میں کچھ ا لات کم ترقی یافتہ ممالک کو بہت زیادہ قیمت پر اور کبھی کبھار سیاسی لاگت پر فروخت کیے جارہے ہیں۔ سیمینارکے صدرنشیں سفیر منیراکرم نے اپنے اختتامی کلمات میں کہاکہ ٹیکنالوجی سیکیورٹی اور ترقی میں اضافے کا ایک بڑا ا لہ ہے اور رہے گی۔ اکیسویں صدی میں، ٹیکنالوجیکل ترقی کی رفتار غیرمعمولی ہے۔ تبدیلی کا عمل بڑی تیزی سے کل کے افسانوی خیالات کو ا ج کی حقیقت میں تبدیل کررہا ہے۔