ہفتہ‬‮ ، 14 جون‬‮ 2025 

تیل نے عربوں کی قسمت ہی بدل ڈالی لیکن اس قبل وہ روزی روٹی کے لئے کیا کرتے تھے کلک کریں

datetime 16  ‬‮نومبر‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن۔۔۔آج کی عرب دنیا کا تصور کیا جائے تو تیل سے مالامال ایک مالدار خطے کا تصور ذہن میں آتا ہے۔لیکن ایک صدی سے بھی کم وقت قبل، عرب ممالک میں ابھی تیل دریافت نہیں ہوا تھا۔
میتھیو ٹیلر لکھتے ہیں کہ یہ ایک غریب خطہ تھا اور یہاں کا ذریعہ معاش گہرے پانیوں میں موتی ڈھونڈنا تھا۔ سامراجی آقاؤں کی سختی اور آپس میں کاروباری مقابلے کے باعث قیمتیں کم ہونے سے موتی ڈھونڈنے کے اس کام کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ بی بی سی کے مطابقیوسف اپنی ٹوکری اٹھائے، پانی میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار تھا۔ اس نے گہرے پانی میں چھلانگ لگائی اور آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔مئی اور ستمبر کے درمیان کویت، بحرین، دوبئی اور ابوظہبی سے لکڑی کی بنی ہوئیں سینکڑوں کشتیاں موتی تلاش کرنے بحیرہ عرب کے سفر پر نکلتیں۔سنہ 1939 میں کویت میں موتی ڈھونڈنے والے یوسف کا یہ قصہ آسٹریلیائی سیاح ایلن ویلیئرز نے اپنی کتاب ’سند باد کے بیٹے‘ میں تحریر کیا۔وہ جتنا وقت پانی میں رہا، باہر خاموشی چھائی رہی۔ پھر اچانک کشتی سے بندھی ہوئی رسی سرکنے لگی اور کچھ دیر میں یوسف اوپر آ گیا۔
اس کی ٹوکری کیکڑوں سے بھری ہوئی تھی جب کہ اس کی آنکھیں پانی میں وقت گزارنے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔ایلن ویلیئرز خوش قسمت تھا کہ اس نے موتی ڈھونڈنے کے اس فن کے خاتمے کے وقت کو کیمرے میں محفوظ کر لیا۔1920 میں جاپان کے تیار کردہ مصنوعی موتی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کی کم قیمت اور خوبصورتی کے باعث بحریرہ عرب کے گرم پانیوں سے نکلنے والے موتیوں کی مارکیٹ کم ہوتی چلی گئی۔یہ لوگ انتہائی مشکل حالات میں ہفتوں سمندر میں وقت گزارتے اور ان میں سے ہر کوئی مقروض تھا۔موتیوں کی تلاش میں پانی میں جانا انتہائی دشوار اور مشکل عمل تھا۔ چھلانگ لگانے والا شخص پہلے اپنے پورے جسم پر تیل ملتا، پھر اسے دونوں کانوں میں روئی ٹھونسنا پڑتی۔ اس کے علاوہ انہیں ہاتھوں کی انگلیوں اور پیروں کو تیز اور نوک دار چٹانوں سے بچانے کے لیے ربڑ سے ڈھانپنا پڑتا۔
مئی اور ستمبر کے درمیان کویت، بحرین، دوبئی اور ابوظہبی سے لکڑی کی بنی ہوئیں سینکڑوں کشتیاں موتی تلاش کرنے بحیرہ عرب کے سفر پر نکلتیں۔ان میں غوطہ خور ، انہیں کشتی سے کنٹرول کرنے والے اور ملاحوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی تھی۔ یہ لوگ انتہائی مشکل حالات میں ہفتوں سمندر میں وقت گزارتے۔ان میں سے ہر کوئی مقروض تھا۔ موتی ڈھونڈنے والے کشتیوں کے کپتان کے مقروض ہوتے انہیں نفع کا ایک حصہ پہلے سے بطور قرض دے دیا جاتا۔1865 میں بحرین نے جسے موتیوں کے کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا تھا، دور جدید کے مطابق تیس ملین پاؤنڈز کا کاروبار کیا۔اگر اس سال زیادہ موتی نہ ملتے تو موتی ڈھونڈنے والے سال در سال قرضوں میں جکڑے رہتے۔اسی طرح کپتان بڑے بڑے سوداگروں کے مقروض ہوتے اور قرضوں کا یہ سلسلہ ایک قطار کی شکل میں اوپر سے نیچے تک جاری رہتا۔ہندوستان اور بھارت سے ان موتیوں کی مانگ نے اس کاروبار کو زندہ رکھا۔1865 میں بحرین نے جسے موتیوں کے کاروبار کا مرکز سمجھا جاتا تھا، دور جدید کے مطابق تین کروڑ پاؤنڈز کا کاروبار کیا۔
1904 میں یہ کاروبار اپنے عروج پر تھا اور اس کی مالیت دس کروڑ پاؤنڈز کے قریب تھی۔لیکن اس کے باوجود تنخواہوں اور کام کرنے کے حالات بد ترین رہے۔ کیونکہ حکمران خاندان اور سامراجی طاقت برطانیہ جدیدیت کے مخالف تھے۔1930 میں برطانوی سفارت کار ہیو بسکو نے لکھا کہ سمندر میں ڈائیونگ سوٹ میں چھلانگ لگانا خطرے سے خالی نہیں۔اس سلوک نے موتی ڈھونڈنے کے کاروبار کو عرب ممالک میں پنپنے نہیں دیا اور وہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔ ان کی ایک پوری نسل نے انتہائی غربت میں وقت گزارا۔لیکن 1950 میں بڑے پیمانے پر تیل کی دریافت نے عربوں کی زندگی اور قسمت ہی بدل ڈالی

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



شیان کی قدیم مسجد


ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…

غزوہ ہند

بھارت نریندر مودی کے تکبر کی بہت سزا بھگت رہا…

10مئی2025ء

فرانس کا رافیل طیارہ ساڑھے چار جنریشن فائیٹر…

7مئی 2025ء

پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…