سمندری طوفان کے نام عموماً زنانہ کیوں رکھے جاتے ہیں؟ مثال کے طور پر قطرینہ، نیلوفر، مالا، انیتا وغیرہ۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایک وجہ یہ ہے کہ زنانہ ناموں کو مردانہ نام کی نسبت بولنا آسان ہے۔ دوسرے بیسویں صدی کے وسط میں جب سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کا باقاعدہ رواج امریکا میں شروع ہوا، تو امریکی خواتین قومی موسمیاتی ادارے کو خط لکھتی تھیں کہ ان کے ناموں پر طوفان کا نام رکھا جائے۔
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ویسٹ انڈیز میں ماہرین موسمیات نے پہلے پہل سمندری طوفانوں کو انسانی نام دیا۔ مثال کے طور پر 1825ء میں آنے والا ’’سانتا آنا‘‘ (Santa Ana) سمندری طوفان جس نے پورٹو ریکو میں خاصی تباہی مچائی۔ یہ نام عیسائیوں کی ایک بزرگ، سینٹ این سے ماخوذ تھا۔
1887ء میں آسٹریلوی ریاست، کوئنز لینڈ میں کلمینٹ وراج، ریاستی ماہر موسمیات مقرر ہوئے۔ ان صاحب نے یونانی و رومی دیوی دیوتائوں کے علاوہ خواتین کے نام بھی سمندری طوفانوں کو دیئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے اس روش کو جاری رکھا یعنی بیشتر سمندری طوفانوں کے نام نسوانی رکھے گئے۔
جب امریکہ و یورپ میں حقوق نسواں کا چرچا پھیلا، تو کئی خواتین رہنمائوں نے امریکی عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ سمندری طوفانوں کے نام نسوانی رکھ کر عورت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اس روایت کے خلاف امریکی خواتین نے پُرزور احتجاج کیا، تو عالمی موسمیاتی ادارہ (ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن) جانوروں، پھولوں، کتابوں وغیرہ کے نام بھی استعمال کرنے لگا۔
سمندری طوفان کے حساب سے عالمی موسمیاتی ادارے نے دنیا کو پانچ خطوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ ایک خطّے (ESCAP/WMO PANEL) کے رکن ممالک میں بھارت، پاکستان، تھائی لینڈ، عمان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما اور مالدیپ شامل ہیں۔
بدقسمتی سے درج بالا خطے کے ممالک طویل عرصہ اس امر یہ متفق نہیں ہوسکے کہ خلیج بنگال، بحیرہ عرب اور بحیرہ انڈیمان میں آنے والے سمندری طوفانوں کو کیا نام دیا جائے۔ چناںچہ بعض کو ایک، دو تین یا اے، بی، سی جیسے بچکانہ نام بھی دیئے گئے۔
آخر 2004ء میں آٹھویں ممالک نے اس نکتے پر اتفاق کر لیا کہ سبھی رکن ملک آٹھ آٹھ نام فراہم کریں گے۔ جب وہ استعمال ہوجائیں، تو پھر نئے نام تخلیق ہوں گے۔ چناں چہ تب سے آٹھوں ملکوں کے دیئے گئے نام باری باری سمندری طوفانوں کو دیئے جارہے ہیں۔ اس بار پاکستان کا نمبر تھا، چناں چہ بحیرہ عرب میں جنم لینے والے سمندری طوفان کا نام ’’نیلوفر ‘‘رکھا گیا۔
2004ء میں پاکستان نے خطّے میں واقع عالمی موسمیاتی ادارے کے دفتر کو یہ آٹھ نام فراہم کیے تھے: فانونس، نرگس، لالہ، نیلم، نیلوفر، وردا، تتلی اور بلبل۔ اب تک پانچ نام استعمال ہوچکے۔ بھارتیوں نے یہ نام دیئے: اگنی، آکاش، بجلی، جال، لہر، میگھ، ساگر اور وایو۔ ان ناموں سے عیاں ہے کہ موسمیات داں ایسے نام منتخب کرتے ہیں جو باآسانی بولے اور سمجھے جاسکیں۔ نیز وہ کسی طبقے کے جذبات مجروح نہ کریں۔
اب نیلوفر کے بعد اس خطے میں جو بھی سمندری طوفان آئے، ان کے نام اس ترتیب سے رکھے جائیں گے: پریا (سری لنکا)، کومن (تھائی لینڈ)، چھاپلہ (بنگلہ دیش)، میگھ (بھارت)، روانو (مالدیپ)، کائنٹ (برما)، ندا (عمان) اور وردا (پاکستان)۔