امریکا کے ساتھ بنیادی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروہوں کے خلاف مشترکہ طور پر کام کرنے کے معاہدے کے بعد ’ڈی کمپنی‘ نامی عسکری گروہ ہندوستان کی توجہ کا مرکز ہے۔
گزشتہ ہفتے ہندوستان اور امریکا نے لشکر طیبہ، القاعدہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور ڈی کمپنی جیسی تنظیموں کے خلاف مشترکہ طور پر کارروائیاں کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے واشنگٹن کے دورے دوران ایک مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے ان تنظیموں کی مالی اور ٹیکٹیکل سپورٹ ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تاہم ہندوستانی اور امریکی میڈیا کے مطابق ہندوستان ایک مخصوص گروپ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جسے ڈی کمپنی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہندوستانی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوال مودی کا دورہ ختم ہونے کے باوجود امریکا ہی میں رہے اور اس حوالے سے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے میں معاونت فراہم کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دوال صاحب کا فوکس اسی گروپ پر رہا کیوں کہ ہندوستان کا یہ ماننا ہے کہ اس گروپ کے گرد گھیرا تنگ کرنا آسان ہوگا کیوں کہ اس کا انحصار اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم پر ہے۔
ہندوستان اعتراف کرتا ہے کہ اسی طرح کے اقدامات لشکر طیبہ جیسے گروپوں کے خلاف لینا مشکل ہوگا کیوں کہ یہ پاکستان کے اندر ہی سے اپنے فنڈز اکٹھا کرتے ہیں۔
ہندوستان نے رپورٹس کے مطابق امریکی حکام کو آگاہ کیا کہ ڈی کمپنی مبینہ طور پر اربوں ڈالر قانونی کاروبار کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور بالخصوص ہندوستان میں سرگرم ہے جبکہ اس کا کاروباری مفاد متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں بھی ہے۔
ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ اس گروپ کے پیسوں کے ٹرانزیکشنز کو امریکی حساس اداروں کی مدد سے باآسانی روکا جاسکتا ہے۔
ہندوستان کا ماننا ہے کہ ڈی کمپنی جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا انڈرگراؤنڈ کاروبار چلانے میں سرگرم ہے۔
اس گروپ کے متعدد اراکین انٹرپول کی مطلوب یا دہشت گرد فہرست میں پہلے ہی سے موجود ہیں۔