کراچی, پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے کہاہے کہ ہم کیسا معاشرہ بنانے جا رہے ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو گردن سے پکڑ کرباہر نکال دیاجائے گا ۔ تشدد اور جارحانہ بیان بازی سے معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی جمہوری اقدار قائم ہو سکتی ہے ۔ اگر دھرنے والوں کی بات آج مان لی جائے تو کل بلوچستان کے لوگ بھی پتھر اور ڈنڈے لے کر اپنے مطالبات کے لیے اسلام آباد پہنچ جائیں گے ۔سندھ کی تقسیم کا سول ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے، اس لئے سندھی طالبان کا لفظ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ طالبان کا پاکستان میں کارروائیاں نہ کرنے سے متعلق بیان مثبت ہے ۔تاہم طالبان کے بیان کا مطلب یہ نہیں کہ ماضی میں تشدد کی جو کارروائیاں کی ہیں ان پر کچھ نہ کیا جائے۔ دھرنے کی سیاست غیر سنجیدہ ہے، پورے ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے ایسے حالات میں دھرنے انا کا مسئلہ لگتے ہیں۔ جب میڈیا آزادی اورانقلاب مارچ دکھانا چھوڑدے گا تو دھرنے ختم ہوجائیں گے۔انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کوہدایت کی ہے کہ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے،انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے پوچھا کہ کیا سندھ میں ایمرجنسی لاگو نہیں ہے اوراسے سیاسی نعرے کے طورپر استعمال نہ کیا جائے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو بلاول ہاوٴس میں صحافیوں کے ساتھ اپنے سیاسی کیریئر کے پہلے براہراست رابطے کے موقع پر میڈیا کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا،اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ،وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن،پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو،شیری رحمن،تنویر اشرف کائرہ،اسپیکر آزاد کشمیر اسمبلی سردار غلام صادق،سابق صوبائی وزیرسید اویس مظفربھی ان کے ہمراہ تھے.
بلاول بھٹو غیر متوقع طورپر صحافیوں کی ہر ٹیبل پر گئے،فرداً فرداً تمام صحافیوں سے ملاقات کی،ان سے تعارف کرایا اوروہ صحافیوں میں گھل مل گئے، انہوں نے کہاکہ ہمیں سندھ کے عوام کے مسائل کا پورا پورااحساس ہے،ہمارے پیش نظر 2018 کے انتخاب نہیں بلکہ مستقبل کی ترقی کیلئے 20 ، 30 سالہ پالیسیاں ہیں ، جن پر ہم عمل کررہے ہیں۔ ان میں تعلیم ہماری بنیادی ترجیح ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان کی طرف سے حملے اور پر تشدد کارروائیاں نہ کرنے کا بیان مثبت ہے اورہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس کا مطب یہ نہیں ہے کہ ماضی میں انہوں نے دہشت گردی کی جو کاررائیاں کیں ، انہیں فراموش کر دیاجائے ۔ قانون کی عمل داری ہونی چاہئے اور قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔ پھر بھی طالبان کا یہ بیان مثبت ہے ۔ حیدر گیلانی ابھی بھی طالبان کی قیدمیں ہیں ۔ طالبان سے کہاجائے کہ وہ حیدر گیلانی سمیت تمام مغویوں کو آزاد کر دیں ۔ ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سندھی طالبان کا وجود ایک مفروضہ ہے ۔ سندھ کی سرزمین طالبان کیلئے نہیں ہیں ،یہ صوفیوں کی سرزمین ہے ۔ یہاں کے باشندوں کی روح میں انتہا پسندی نہیں ہے ، اگر ایک دو افراد کا برین واش کرکے ان سے کوئی کام لیا گیاہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سندھی طالبان پیدا ہوگئے ہیں ۔ کراچی میں نیوی کی تنصیبات پر حملے کا معاملہ کچھ اور ہے ۔ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے حوالے سے بلاول بھٹوزرداری نے کہاکہ پنجاب میں سیلاب نے تباہی پھیلادی ہے ۔ خیبرپختونخوا میں ، جہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے ، لاکھوں آئی ڈی پیز پریشانی کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ سندھ میں بھی سیلاب کے خطرات ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب بھی جاری ہے ۔
ایسے حالات میں دھرنے غیر سنجیدہ سیاسی سرگرمی ہیں ۔ دھرنوں کی بجائے عوام کے مسائل اور دکھوں کو حل کرناچاہئے ۔ الزام تراشی کی سیاست کا وقت نہیں ہے ۔ الزام تراشی کے بجائے مینڈیٹ کا احترام کرناچاہئے ۔ ہمیں بھی انتخابی نتائج پر تحفظات تھے لیکن ہم نے جمہوریت کے تسلسل کے لیے مسائل پیدا نہیں کیے ۔ جو لوگ 90 دن میں نیا پاکستان بنانے کی بات کرتے ہیں ، وہ رات کو اسلام آباد میں ڈانس اور گانا بجانا کرتے ہیں ۔ سیاست دانوں کو یہ باتیں زیب نہیں دیتی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ آزادی اور انقلاب مارچ میڈیا کے کیمروں کی وجہ سے ہے ۔ آج کیمرے بند کردیئے جائیں ، مارچ اور دھرنے ختم ہوجائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے زبردست احتجاج ہوتے رہے لیکن کبھی کسی میڈیا نے احتجاج کرنے والوں کو اتنی کوریج نہیں دی ۔ پارلیمنٹ تو دور کی بات ہے ، انہیں پریس کلب کے باہربھی نہیں بیٹھنے دیاگیا ۔ ہم کیسا معاشرہ بنانے جا رہے ہیں ، لوگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو گردن سے پکڑ کرباہر نکال دیاجائے گا ۔ تشدد اور جارحانہ بیان بازی سے معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی جمہوری اقدار قائم ہو سکتی ہے ۔ اگر دھرنے والوں کی بات آج مان لی جائے تو کل بلوچستان کے لوگ بھی پتھر اور ڈنڈے لے کر اپنے مطالبات کے لیے اسلام آباد پہنچ جائیں گے ۔ بلاول بھٹوزرداری نے کہاکہ یہ تاثر غلط ہے کہ سندھ میں کم اور پنجاب میں زیادہ ترقی ہوئی ہے ۔ بات یہ ہے کہ پنجاب میں گذشتہ 60 سالوں میں محض چند علاقوں کو ترقی دی گئی ۔ اب 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اختیار صوبوں کو ملا ہے ۔ اب ہم سندھ کے ہر شہرکو مساوی ترقی دلا رہے ہیں ۔ پنجاب اگر میٹرو بس کے منصوبے پرکروڑوں روپے خرچ کررہا ہے تو یہ ان کی اپنی ضرورت ہے ۔ سندھ اپنی ضرورت کے مطابق ترقیاتی منصوبے بنارہا ہے ۔ سندھ میں اب تک جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں ، وہ پیپلز پارٹی نے ہی کیے ہیں ۔ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے سندھ کو انتظامی طورپر تقسیم کرنے سے متعلق بیان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ سندھ ایک تاریخی اکائی ہے ، اسے تقسیم نہیں کیا جاسکتا ۔ تقسیم کرنے کی باتیں فضول ہیں ۔