اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینئر صحافی اور اینکر پرسن ہرمیت سنگھ نے انکشاف کیا ہے کہ نوجوان اداکارہ ثناء یوسف اپنی موت سے محض ایک گھنٹہ قبل تک ان کے ساتھ رابطے میں تھیں۔ ان کے بقول گزشتہ کئی دنوں سے ان کے درمیان مسلسل بات چیت جاری تھی۔انہوں نے بتایا کہ مقتولہ ایک فلیٹ میں مقیم تھیں جس کی بالائی منزل پر بغیر اجازت جانا ممکن نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حملہ آور کوئی جان پہچان والا شخص تھا جس سے عمارت میں موجود لوگ پہلے سے واقف تھے۔نجی چینل “نیو ٹی وی” سے بات کرتے ہوئے ہرمیت سنگھ نے کہا کہ یہ واقعہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مقتولہ کی میت کو راتوں رات منتقل کر دینا بھی کئی شکوک کو جنم دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ خاندانی مسائل کے باعث لواحقین نے میڈیا میں معاملے کو نمایاں ہونے سے روکنے کی کوشش کی ہو۔
ایف آئی آر کے مطابق ایک دبلے پتلے نوجوان نے فلیٹ میں داخل ہو کر فائرنگ کی۔ ہرمیت سنگھ نے بتایا کہ محلے کے کسی فرد نے ثناء کے کردار پر اعتراض نہیں اٹھایا، اور وہ خود ایک خوش باش زندگی گزارنے کی خواہش رکھتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ دکھ کی گھڑی میں تعزیت کرنے کی بجائے تنقید شروع کر دیتے ہیں، جو ایک سنگین معاشرتی المیہ ہے۔ ان کے مطابق ہفتے کے دوران متعدد بار ثناء سے پیشہ ورانہ نوعیت کے چھوٹے منصوبوں پر بات چیت ہوئی، اور ہر بار خوش دلی سے گفتگو ہوئی، جس سے ان کی بہتر تربیت کا اندازہ ہوتا تھا۔اس سوال پر کہ کیا وہ قتل سے صرف ایک گھنٹہ قبل، یعنی صبح 3 بجے تک ان کے ساتھ رابطے میں تھیں، جبکہ ایف آئی آر میں قتل کا وقت 4 بج کر 5 منٹ درج ہے؟ اینکر نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ لاش کو فوری طور پر نانی کے گھر منتقل کر کے راتوں رات چترال بھیج دیا گیا، اور کسی بھی جانب سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
ہرمیت سنگھ نے مزید کہا کہ فلیٹ کی زیریں منزل پر کوئی رہائش پذیر تھا، اور قرائن بتاتے ہیں کہ سبھی لوگ حملہ آور کو جانتے تھے۔ ثناء کی پھوپھی نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر وہ شخص سامنے آئے تو وہ اسے پہچان سکتی ہیں۔ ان کے بقول ثناء یوسف نہایت خوش مزاج لڑکی تھیں اور انہیں جلد ہی ایک ٹی وی ڈرامے میں کام کی پیش کش بھی ہوئی تھی۔انہوں نے زور دیا کہ ثناء کی موت پر لوگوں کو جنت و دوزخ کی بحث سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ یہ خالصتاً خدا اور بندے کا معاملہ ہے۔جب ان سے متاثرہ خاندان کی خاموشی اور میڈیا سے دوری پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ قبائلی روایات اپنی جگہ ہیں، مگر ایسی صورت حال میں کھل کر گفتگو ہونی چاہیے۔ پریس کلب موجود ہے، بات کرنے کا پلیٹ فارم بھی موجود تھا، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی سے بات کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک باصلاحیت لڑکی کو اُس کے ہی گھر میں مار دیا گیا، جہاں وہ سب سے زیادہ محفوظ ہونی چاہیے تھی۔ ریاست کو بھی اس سانحے کی ذمہ داری لینی چاہیے کیونکہ ایسے افراد ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔