اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)گلوکارہ و اداکارہ میشا شفیع گلوکار و اداکار علی ظفر پر الزامات کے بعد شوبز انڈسٹری میں طوفان برپا ہے اور ہر کوئی اس موضوع پر بات کرتا دکھائی دے رہا ہے مگر اب میشا شفیع اور علی ظفر کے تنازعہ پر صحافتی حلقوں میں بھی بحث چھڑ گئی ہے اور نجی ٹی وی دنیا نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے معروف کالم نگار و تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا تھا کہ
”اگر کوئی کسی پوزیشن آف اتھارٹی میں ہو، کوئی پروڈیوسر ہو ، جیسے ہالی ووڈ کاہاروی وائن سٹائن تھا تو آپ اپنی پوزیشن کو ناجائز استعمال کر کے کچھ کرتے ہیں تو وہ بات ہراسگی میں آتی ہے۔ ہاروی وائن سٹائن پر ایک الزام نہیں لگا بلکہ کئی الزامات لگے کہ اس کا طریقہ واردات ہی یہی تھا۔’می ٹی‘ موومنٹ کا ایک ردعمل بھی سامنے آیا ہے جیسا کہ فیشن ڈیزائنر کارل لاگرفیلڈ نے بیان دیا ہے کہ یہ کیا بات ہے کہ ہر کوئی الزام دے رہا ہے۔ کسی کا ہاتھ پکڑیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہراساں کیا ہے۔ اگر ماڈل گرلز کو اتنا ہی مسئلہ ہے تو پھر اس فیلڈ میں مت آئیں۔یہاں پر تو علی ظفر بھی جانا پہچانا نام ہے اور میشاءشفیع کا بھی بڑا قد کاٹھ ہے۔ یہ چھوٹا سا طبقہ مکس پارٹیز میں جاتا ہے، اب وہاں پر پتہ نہیں کباب کے ساتھ وہ کیا چیز دوسری ہوتی ہے جو پیش کی جاتی ہے، مجھے تو نام بھی یاد نہیں آ رہا۔ آپ ایسی محفل میں جا رہے ہیں جہاں رات 12بجے کے بعد آپ کو کھانا مل رہا ہے، اب وہاں کسی نے کسی کی طرف دیکھ لیا یا کوئی جملہ کس دیا تو یہ ہراساں کرنا کیسے ہو گیا؟میشاءشفیع نے علی ظفر پر الزامات لگائے تو دو اور خواتین بھی سامنے آ گئیں۔ ایک نے کہا کہ مجھ سے سیلفی بنا رہے تھے تو میری کمر پر ہاتھ لگایا تھا۔ دوسری ایک میک اپ آرٹسٹ ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ ذومعنی گفتگو بہت کرتے تھے، میں تو ابھی اپنے میک اپ روم میں گیا اور کہا کہ بات سنیں ابھی الزام لگ رہے ہیں تو کیا یہاں کوئی ذومعنی گفتگو تو نہیں کرتا، یہ سن کر وہ سب خواتین ہنس پڑیں۔“