لاہور( این این آئی)پاکستان میں سونے کی سالانہ طلب 60سے 90ٹن کے درمیان ہے جس کی مالیت 8سے 12ارب ڈالر بنتی ہے لیکن اس میں سے 90فیصد سے زیادہ تجارت اب بھی غیر دستاویزی طریقوں سے ہوتی ہے۔ یہ بات مسابقتی کمیشن کی رپورٹ ”پاکستان گولڈ مارکیٹ اسیسمنٹ اسٹڈی”میں سامنے آئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سونے کی 70فیصد طلب شادیوں اور تقریبات کے مواقع پر ہوئی جبکہ ملک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔مالی سال 2024ء میں پاکستان نے 1کروڑ 70لاکھ ڈالر مالیت کا سونا درآمد کیا، جبکہ سال رواں سال میں پاکستان کے سرکاری سونے کے ذخائر 64.76ٹن جن کی مالیت تقریباً 9ارب ڈالر بنتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریکوڈک منصوبہ آئندہ 37سالوں میں 74ارب ڈالر کی آمدن پیدا کر سکتا ہے۔ اس دوران 1کروڑ 79لاکھ اونس سے زائد سونا نکلنے کی امید ہے، جس کی مالیت موجودہ نرخوں کے مطابق 54ارب ڈالر ہے۔ تاہم ادارے نے خبردار کیا کہ اگر ریفائننگ، ہال مارکنگ اور ریگولیشن میں فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ سونا بھی اسی غیر دستاویزی مارکیٹ میں شامل ہو جائے گا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی گولڈ مارکیٹ میں متعدد اداروں کی الگ الگ نگرانی، کمزور ہال مارکنگ سسٹم، اور زیادہ کمپلائنس اخراجات نے اسمگلنگ اور غیر رسمی تجارت کو فروغ دیا ہے۔سونے کی خرید و فروخت بڑے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں مرکوز ہے جبکہ روزانہ قیمتوں کا تعین مارکیٹ میکانزم کے بجائے تاجر تنظیموں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
کمیشن نے سونے کی تجارت کو دستاویزی بنانے اور عالمی معیار کے مطابق لانے کے لیے متعددتجاویز پیش کیں جن میں ایک متحدہ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ہال مارکنگ کو لازمی قرار دینا،ٹریس ایبلٹی کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز جیسے بلاک چین کا استعمال، گھریلو سونے کو باضابطہ بنانے کے لیے گولڈ بینکنگ سسٹم کا قیام، بہتر ٹیکسیشن، لیبر پالیسی اور ڈیٹا گورننس کا نظام وغیرہ شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر پاکستان نے بروقت اصلاحات کر لیں تو سونے کا شعبہ ملکی معیشت میں اربوں ڈالر کا اضافہ کر سکتا ہے۔















































