لاہور( این این آئی)رواں مالی سال میں جولائی تا اپریل کے دوران 88کروڑ 70لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا جس کا حجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 25کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہا تھا۔رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 10ماہ کے دوران ملک میں ایک ارب 45کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی۔مزید تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ اپریل میں منافع کی بیرون ملک منتقلی 8 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے ماہانہ اوسط کے برعکس محض 5کروڑ 60لاکھ ڈالر رہی جس سے عندیہ ملتا ہے کہ مرکزی بینک اب بھی کوشش کررہا ہے کہ 30 جون کو مالی سال کے اختتام تک ڈالرز کو ملک میں رکھا جاسکے۔
آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق اسٹیٹ بینک کو مالی سال 2024 کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر تک برقرار رکھنے ہیں۔مزید برآں رواں برس غیرملکی سرمایہ کار پر منافع کی بیرون ملک منتقلی 81 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہی۔مینوفیکچرنگ سیکٹر سے سب سے زیادہ منافع بیرون ملک منتقل ہوا، اس میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں واضح فرق دیکھا گیا۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران مینوفیکچرنگ سیکٹر سے 22 کروڑ 69 لاکھ ڈالر کا منافع اور ڈیوڈنڈ باہر بھیجا گیا جس کا حجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 3 کروڑ 4 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مالی سال 2024 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران ہول سیل اور ریٹیل کے شعبے سے منافع کی بیرون ملک منتقلی 21 کروڑ 35 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی جو گزشتہ برس صرف 48 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی، جس سے مالی سال 2023 میں سخت پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔رواں برس 9 ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر اور اس معاملے میں آئی ایم ایف کی ممکنہ مداخلت کی وجہ سے اس سال منافع کی بیرون ملک منتقلی سے نرم پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔